اسرائیل نے امن مذاکرات کی تمام کاوشوں کو ناکام بنا دیا ہے: محمود عباس

(نیویارک۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 6 جمادی الثانی 1439ھ)  فلسطین کے صدر محمود عباس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں تقریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل نے مذاکرات کی بحالی کے لیے تمام کاوشوں کو ناکام بنا دیا ہے اور وہ بطور ریاست قانون سے بالا تر اقدامات کررہا ہے۔

اُنہوں نے نیویارک میں قائم اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں تقریر کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ 2018ء کے وسط میں بین الاقوامی مشرقِ وسطیٰ امن کانفرنس بلائی جائے۔ صدر عبّاس نے کہا کہ مشرقِ وسطیٰ کے وسیع تر امن عمل کے تحت مقبوضہ القدس ( مقبوضہ یروشلم ) فلسطینی دارالحکومت کے ساتھ  ریاست فلسطین کو تسلیم کیا جائے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ’’ فلسطین کے مسئلے کے حل کے لیے بین الاقوامی امن کانفرنس کے انعقاد کے بعد ایک کثیرالجہتی بین الاقوامی نظام قائم کیا جائے‘‘۔ اُنہوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ القدس کو فلسطین کا دارالحکومت ہونا چاہیے اور یہ تمام مذاہب کے پیروکاروں کے لیے کھلا ہونا چاہیے۔

فلسطینی صدر کا کہنا تھا کہ یہودیت کے ساتھ بطور مذہب ہمیں کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے بلکہ ہمیں تو قابض کے ساتھ مسئلہ ہے جس کا مذہب خواہ کوئی بھی ہو۔

اُنہوں نے کہا کہ ’’یہ بات حیران کن ہے کہ امریکا اب بھی تنظیم آزادیٴ فلسطین ( پی ایل او ) کو ایک دہشت گرد تنظیم سمجھتا ہے اور اس کے کام میں روڑے اٹکاتا ہے‘‘۔ وہ امریکی کانگریس میں 1987ء میں منظور کردہ ایک قانون کا حوالہ دے رہے تھے۔

صدر محمود عباس نے اپنی تقریر میں مزید کہا کہ وہ اقوام متحدہ میں فلسطینی ریاست کی مکمل رکنیت کے لیے اپنی کوششو ں میں تیزی لائیں گے اور بین الاقوامی تحفظ کے حصول کی بھی کوشش کریں گے۔

اُنہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ تمام ممالک فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کرلیں گے کیونکہ یہ اقدام مذاکرات کے منافی نہیں ہوگا بلکہ اس سے ان کو تقویت ملے گی۔

یاد رہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دسمبر میں یک طرفہ طور پر مقبوضہ القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے بعد سے فلسطینی قیادت امریکا کو غیر جانبدار مصالحت کار یا ثالث کار کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کرچکی ہے۔ صدر محمود عباس ایک سے زیادہ مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ امریکا خود ہی مشرقِ وسطیٰ امن عمل میں ثالث کار ہونے کے کردار سے دستبردار ہوگیا ہے۔

فلسطینی قائدین اب مشرقِ وسطیٰ کے دیرینہ تنازعے کے تصفیے کے لیے عالمی سطح پر ایک اجتماعی حکمت عملی اختیار کرنے پر زوردے رہے ہیں۔ وہ صدر ٹرمپ کے القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے علاوہ امریکا کی جانب سے اقوام متحدہ کے تحت فلسطینی مہاجرین کی امداد کی ذمہ دار ایجنسی اُنروا یُو این آر ڈبلیو اے کی سالانہ مالی امداد بند کرنے کے فیصلے پر بھی سخت ناراض ہیں۔

مشرق وسطیٰ امن عمل میں امریکہ کا کردار رہا تھا لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدارتی منصب سنبھالنے کے بعد سے واشنگٹن کی اسرائیل نواز یکطرفہ پالیسیوں کی وجہ سے نہ صرف فلسطینی بلکہ مسئلہ فلسطین کے پُرامن حل کی خواہاں بین الاقوامی برادری نے بھی امریکی پالیسیوں سے عدم اتفاق کا اعلان کیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی میں امریکہ کے دیرینہ اتحادیوں برطانیہ، فرانس، جرمنی، جاپان، جنوبی کوریا سعودی عرب، اُردن اور مصر نے بھی مقبوضہ القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے اعلان کو مُسترد کیا ہے۔ چین اور بھارت جیسے امریکہ کے بڑے معاشی شراکتدار اور نئے اتحادی نے بھی امریکی صدر کے یکطرفہ اعلان کو بالترتیب اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی میں مُسترد کیا ہے۔

مقبوضہ القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے پر واشنگٹن اور تل ابیب دونوں کو بڑھتی ہوئی بین الاقوامی تنہائی اور تنقید کا سامنا ہے۔ اس اعلان نے مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اثرورسوخ اور اسکی ساکھ کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔