اسرائیل کیخلاف متحدہ مؤقف، اسلامی تعاون تنظیم کا سربراہ اجلاس آج استنبول میں ہوگا

(استنبول۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 02 رمضان 1439ھ) غزہ سمیت فلسطین کی تازہ ترین صورتحال پر بات چیت کیلئے اسلامی تعاون تنظیم، او آئی سی کا سربراہ اجلاس آج جمعے کے روز ترکی کے تاریخی شہر استنبول میں منعقد ہورہا ہے۔

ترکی کے صدارتی ذرائع کیمطابق اجلاس میں اس موضوع پر توجہ مرکوز کی جائے گی کہ فلسطین میں اسرائیلی جبروتشدّد کے خاتمے کیلئے کیا اقدامات کیے جائیں۔ امکان ہے کہ اس اجلاس میں ترکی سمیت کئی ممالک کے سربراہان، وزرائے خارجہ اور اعلیٰ سطحی عہدیدار شرکر کریں گے۔

15 مئی کو مقبوضہ القدس میں امریکہ کے افتتاح کے دن غزہ میں مقبوضہ اسرائیلی سرحد کے نزدیک احتجاجی مظاہرہ کرنے والے نہتّے فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج نے اندھادھند فائرنگ کی جس سے صرف ایک ہی دن میں 61 فلسطینی جاں بحق ہوگئے تھے۔ اسرائیل 15 مئی کو اپنا یومِ تاسیس مناتا ہے جبکہ فلسطینی اس دن کو ’’نکبہ‘‘ یعنی یومِ تباہی کے طور پر مناتے ہیں۔ یہ وہ دن ہے جب 1948ء میں برطانیہ نے پورے یورپ سے یہودیوں کو فلسطین لاکر آباد کرکے ریاست اسرائیل تخلیق کی تھی۔ اس غیرقانونی عمل میں لاکھوں فلسطینیوں کو اُن کے گھروں، زرعی زمینوں، گاؤں، مویشیوں، باغات اور دیگر جائیدادوں پر قبضہ کرکے اُنہیں اُن ہی کے گھروں اور علاقے سے بیدخل کردیا گیا تھا۔ اِ س دوران یورپ میں ظلم وزیادتی کا شکار یہودیوں کو وہاں سے مہاجرین کے طور پر لاکر فلسطینیوں کے گھروں، علاقوں اور گاؤں میں بسادیا گیا اور یہ ناجائز قبضہ آج تک جاری ہے۔

اسلامی ممالک میں عوام توقع کررہے ہیں کہ اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس میں تمام مسلمان ممالک امریکہ اور اسرائیل کے فیصلوں کیخلاف مشترکہ موقف اپناتے ہوئے محض مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے کے بجائے ایسے عملی اقدام اُٹھائیں گے جن میں اُن ممالک سے سفارتی تعلق منقطع کرنا شامل ہوگا جنہوں نے مقبوضہ القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے بین الاقوامی قوانین اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ یہ توقع بھی کی جارہی ہے کہ اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس میں بین الاقوامی فوجداری عدالت سے مشترکہ مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ غزہ میں اسرائیل کی مبینہ سرحد کے نزدیک اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے 110 سے زائد فلسطینیوں کی ہلاکت اور 4000 سے زائد لوگوں کے زخمی کرنے کی جامع تحقیقات اور مجرمان کا تعین کرنے کیلئے فوری کارروائی کا آغاز کرے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ترکی نے امریکہ کیجانب سے مقبوضہ القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلے اور غزہ میں اسرائیل فوج کی فائرنگ سے فلسطینی باشندوں کی بڑی ہلاکتوں پر سخت اور اُصولی موقف اختیار کیا ہے جبکہ عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم نے بھی بیان کی حد تک سخت لہجے میں بات کی ہے لیکن سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر اور پاکستان جیسے اہم اسلامی ملکوں کیجانب سے ٹھوس اور دوٹوک موقف اور مقبوضہ القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے والے ممالک سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کے انتباہ کے بغیر دنیا بھر میں مسلمان مطمئین نہیں ہوں گے اور نہ ہی اسرائیل کی ریاستی دہشتگردی کا خاتمہ ہوگا۔

پاکستان، مصر، ملائیشیاء اور مشرقِ وسطیٰ میں تجزیہ کاروں  کا کہنا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ اسلامی ممالک اور اُن کے رہنماء بیان بازی سے ہٹ کر ایسے عملی اقدامات کریں جن سے اسرائیل اور امریکہ جیسے اُس کے حامیوں سمیت دنیا پر حقیقی طور پر واضح ہوسکے کہ مسئلہ فلسطین پر مسلمان کسی طور پر جبر اور ناجائز اقدامات کو قبول نہیں کریں گے۔

یاد رہے کہ رواں سال 30 مارچ سے غزہ میں شروع ہونے والے والے احتجاجی مظاہروں میں 15 مئی تک اسرائیلی فوج کے ہاتھوں 111 سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں جن میں بچّے اور صحافی بھی شامل ہیں جبکہ مجموعی طور پر 4700 سے زائد فلسطینی زخمی ہوئے ہیں۔ فلسطینی عوام ہر سال یہ مظاہرے اس مطالبے کیلئے منعقد کرتے ہیں کہ اسرائیل اُن کے مقبوضہ گھر، گاؤں، زرعی زمینیں، باغات اور دیگر املاک واپس کرے جن پر 1948ء میں قبضہ کیا گیا تھا۔