(ماسکو۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 5 جمادی الثانی 1439ھ) پاکستان کے وزیرِ خواجہ آصف نے رُوس کے وزیر خارجہ سرگئی لافروف سے ملاقات کیساتھ ایک اخباری کانفرنس میں کہا ہے کہ افغانستان میں موجود دہشتگرد پاکستان اور رُوس دونوں کیلئے خطرہ ہیں جبکہ رُوسی وزیرِ خارجہ نے افغانستان میں نیٹو اور امریکہ أفواج کی موجودگی میں دہشتگرد گروپ داعش کے وہاں قدم جمانے پر سخت سوالات اُٹھائے ہیں۔
روسی وزیرخارجہ سرگئی لافروف نے وزیرخارجہ خواجہ آصف کا ماسکو میں استقبال کیا
روس کے دارالحکومت ماسکو میں اپنے روسی ہم منصب کے ساتھ اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ افغانستان کے معاملے پر پاکستان اور روس ہم خیال ہیں، پاکستان تمام شعبوں میں روس کے ساتھ تعلقات بڑھانے کا خواہاں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان روس کے ساتھ تجارت، توانائی، صنعت، دفاع، دفاعی پیداوار، ثقافت اور تعلیم سمیت تمام شعبوں میں تعلقات بڑھانا چاہتا ہے۔
اُنہوں نے افغانستان میں داعش کی موجودگی کو ہمسایہ ملکوں کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں موجود دہشتگرد پاکستان اور روس دونوں کے لیے خطرہ ہیں۔
وزیرِ خارجہ خاجہ آصف نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ افغان مسئلے کا کوئی عسکری حل نہیں ہے، افغان رہنماؤں کی سربراہی میں مفاہمتی عمل ہی امن کا آخری حل ہے۔
پاکستانی وزیر خارجہ نے نشاندہی کی کہ بین الاقوامی افواج نے گزشتہ سترہ سالوں سے افغانستان میں کچھ حاصل نہیں کیا بلکہ وہ اپنی ناکامی چھپانے کے لیے پاکستان اور دوسرے ممالک کو قربانی کا بکرا بنانا چاہتے ہیں لیکن ہم اپنی سرزمین پر کسی اور کی جنگ نہیں لڑ سکتے۔
روسی وزیر خارجہ سرگئی لافروف نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے زور دیا کہ کہا کہ امریکی افواج اور نیٹو کی موجودگی میں داعش کا افغانستان میں قدم جمانا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ امریکا افغانستان میں دہشت گردی اور منشیات کی روک تھام میں ناکام ہو گیا ہے۔ روسی وزیرِ خارجہ نے افغانستان میں شناخت نہ کیے جاسکنے والے ایسے ہیلی کاپٹروں کا ذکر بھی کیا جو دہشتگردوں کے علاقوں میں آتے جاتے رہتے ہیں۔
جناب لافروف کا کہنا تھا کہ امریکہ اور نیٹو افغانستان میں داعش دہشتگردوں کی موجودگی سے انکار کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ ’’ہم چوکنّا ہوگئے ہیں کیونکہ بدقسمتی سے افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی افواج خاموش رہنے اور وہاں داعش کی موجودگی سے انکار کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں‘‘۔
روسی وزیرِ خارجہ نے بتایا کہ ہمارے اعدادوشمار کیمطابق شمالی اور مشرقی افغانستان میں داعش کی موجودگی کہیں زیادہ سنگین ہے اور وہاں پہلے ہی ہزاروں مسلح لوگ ہیں۔ اُنہوں نے اسے داعش کے وسطی ایشیاء میں گھسنے کا خطرہ قراردیا۔
اُنہوں نے شنگھائی تعاون تنظیم کی اہمیت باور کرواتے ہوئے کہا کہ یہ علاقائی انسدادِ دہشتگردی تنظیم افغانستان میں داعش کا بڑھتا ہوا اثرورسوخ ناکام بنانے کیلئے اقدامات کرسکتی ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان اور بھارت شنگھائی تعاون تنظیم کے مکمل رُکن ہیں جبکہ اس میں چین، رُوس، قازقستان، کرغستان، تاجکستان اور ازبکستان شامل ہیں۔ افغانستان، بیلاروس، ایران اور منگولیا اس وقت شنگھائی تعاون تنظیم کا مشاہدہ کرنے والے رکن ہیں۔ اسی طرح سری لنکا، ترکی، آذربائیجان، آرمینیا، کمبوڈیا اور نیپال مذاکرات کے شراکتدار ممالک ہیں۔