القدس کے بغیر اسرائیل کیساتھ کوئی امن سمجھوتہ نہیں ہوسکتا: فلسطینی انتظامیہ

(رملہ۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 10شعبان 1439ھ)  فلسطینی انتظامیہ نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ القدس کے بغیر اسرائیل کیساتھ کسی ’’امن سمجھوتے‘‘ کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ فلسطینی مقبوضہ القدس کو مستقبل کی فلسطینی ریاست کا دارالحکومت قراردیتے ہیں اور عمومی طور پر عالمِ اسلام سمیت فلسطینی کی آزادی کے حامی ملکوں اور بین الاقوامی تنظیموں کا موقف بھی یہی ہے کہ القدس کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہونا چاہیئے۔

فلسطینی انتظامیہ کے ترجمان نبیل ابُو ردئینا نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’کسی بھی فریق کیجانب سے کسی بھی نعرے اور موقف کیساتھ مشکوک خیالات کے فروغ کی کوئی بھی کوشش بے سُود ہے اور اسکی کوئی اہمیت نہیں ہوگی‘‘۔

اپنے بیان میں اُنہوں نے کہا ہے کہ ’’جو لوگ مشکوک تجاویز پیش کرکے اور نعرے دے کر عرب امن اقدام اور بین الاقوامی قانون کی مسلمہ حیثیت کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں ہم اُنہیں کہتے ہیں کہ تمہارے کوششوں کا انجام ناکامی ہے‘‘۔

نبیل ابُو ردئینا نے یہ کہتے ہوئے کہ کوئی فلسطینی یا عرب مذکورہ کوششوں کو قبول نہیں کریں گے، باور کروایا کہ ’’ایک آزاد فلسطینی ریاست جس کا 1967 کی سرحدوں کیمطابق دارالحکومت مشرقی القدس ہو، اُس کے قیام اور پنا گزینوں کے منصفانہ حل کے بغیر کوئی حل نہیں ہوگا‘‘۔

اطلاعات کیمطابق ترجمان نے یہ بیان بعض ممالک کیجانب سے فلسطینی انتظامیہ سے یہ کہنے کے بعد دیا ہے کہ وہ فلسطین اور اسرائیل کا تنازع حل کرنے کیلئے امریکی تجاویز کو قبول کرلے۔ لیکن فلسطینی انتظامیہ اور فلسطین کی آزادی کیلئے جدوجہد کرنے والی تنظیموں سمیت اسلامی ممالک نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجاویز کو مُسترد کیا ہے جو غیرقانونی اور یکطرفہ طور پر مقبوضہ القدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرچکے ہیں۔

فلسطینی عوام مقبوضہ علاقوں کی آزادی کیلئے جدوجہد کررہے ہیں جبکہ امریکی حمایت یافتہ اسرائیلی حکومت نے فلسطینی علاقے غزہ کی ناکہ بندی کرکے گزشتہ دس سالوں سے مقامی فلسطینیوں کو اس علاقے میں محصور کررکھا ہے جہاں بجلی، پانی اور روزمرہ اشیائے ضرورت کی قلّت کا بحران جاری ہے۔

قبل ازیں، سعودی عرب کے فرمانرواں شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے رواں ماہ عرب لیگ کے زیرِاہتمام منعقدہ عرب سربراہ اجلاس کو’’القدس کانفرنس‘‘ کا نام دیا تھا تاکہ دنیا پر واضح کیا جاسکے کہ ’’فلسطین‘‘ عربوں کے ضمیر میں زندہ ہے۔ اُنہوں نے اپنے خطاب میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کیجانب سے امریکہ کا سفارتخانہ تل ابیب سے القدس منتقل کرنے کے فیصلے کی مذمت کی تھی۔ یاد رہے کہ یہودی القدس کو یروشلم کہتے ہیں۔

دوسری جانب، فلسطینیوں پر قابض اسرائیلی فورسز کی بربریت مسلسل جاری ہے۔اسرائیلی فوج نے اس سال بھی 30 مارچ بروز جمعہ ’’یوم الارض‘‘ کے موقع پر فلسطینیوں کے پُرامن مظاہرے پر گولیاں چلائیں اور ٹینکوں سے گولہ باری بھی کی گئی جس کے نتیجے میں اُسی روز کم ازکم 16 فلسطینی ہلاک اور 1400 سے زائد زخمی ہوئے جبکہ اسرائیلی مقبوضہ سرحد کے نزدیک اِن حالیہ مظاہروں میں مجموعی طور پر 20 سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوئے۔ یہ مظاہرے 15 مئی تک جاری رہیں گے۔ یہ وہ دن ہے جب 1948ء میں برطانیہ کی پشت پناہی میں اسرائیلی ریاست تخلیق کرکے فلسطینیوں کو اُن کے گھروں، زمینوں، شہروں، قصبوں اور گاؤں سے بزورِ طاقت بیدخل کیا گیا تھا۔ فلسطینی اِس دن کو ’’نبکا‘‘ یعنی ’’یومِ تباہی‘‘ کہتے ہیں۔ اِس دن کی مناسبت سے فلسطینی اپنے اِس مطالبے کو دہراتے ہیں کہ قبضہ کرلیے گئے اُن کے گھروں، شہروں، زمین، قصبوں اور گاؤں کو واپس لوٹایا جائے اور اُنہیں اپنے مقبوضہ گھروں، شہروں، محلوں اور گاؤں میں واپس آنے دیا جائے۔

یاد رہے کہ 1976ء میں اسرائیلی پولیس نے اسرائیل ہی کے 6 فلسطینی شہریوں کو اُس وقت گولی مار کر ہلاک کردیا تھا جب وہ فلسطین کی ہزاروں ایکڑ زمین پر اسرائیلی حکومت کے قبضے کیخلاف احتجاج کررہے تھے۔ اُس کے بعد سے فلسطینی ہر سال 30 مارچ کا دن ’’یوم الارض‘‘ کے طور پر مناتے ہوئے مغربی کنارے، مشرقی القدس، غزہ اور اسرائیل میں بھی بڑے احتجاجی مظاہرے کرتے ہیں۔  گزشتہ ماہ 30 مارچ کو بھی فلسطینیوں نے اپنے گھروں اور زمین کی واپسی کا مطالبہ دہرانے کیلئے مظاہرہ کیا لیکن ایک مرتبہ پھر اسرائیلی فوج نے اُنہیں گولیوں اور گولوں سے نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں کم ازکم 20 فلسطینی ہلاک اور 1400 سے زائد زخمی ہوگئے۔ یہ مظاہرے مسلسل جاری ہیں۔