امریکہ کو اسرائیل میں اپنا سفارتخانہ مقبوضہ القدس منتقل کرنے پر سفارتی دھچکے

(قاہرہ۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 01 رمضان 1439ھ) امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کو اسرائیل کی حد سے زیادہ حمایت اور مدد کرنے پر بین الاقوامی سطح پر سفارتی تنہائی کا سامنا ہے جبکہ مشرقِ وسطیٰ سمیت دنیا بھر میں عوامی سطح پر امریکہ مخالف جذبات اس حد تک نمایاں ہوگئے ہیں کہ واشنگٹن کے قریبی اتحادی بھی اُس کی حمایت سے گریزاں ہیں۔

سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کیجانب سے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں نہتّے فلسطینی مظاہرین کی حالیہ ہلاکتوں کی مذمّت کے بعد مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے ایک بیان میں خبردار کیا ہے کہ اسرائیل میں امریکی سفارتخانے کی تل ابیب سے مقبوضہ القدس منتقلی سے عدم استحکام پیدا ہوگا۔ یاد رہے کہ یہودی القدس کو یروشلم کہتے ہیں۔

قاہرہ میں منعقدہ نوجوانوں کی ایک کانفرنس کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے السیسی نے کہا کہ ’’امریکی سفارت خانے کی منتقلی کے معاملے پر ہم کہہ چکے ہیں کہ اس سے عرب اور اسلامی رائے عامہ پر منفی اثرات مرتب ہوں گے، بیچینی اور عدم استحکام پیدا ہوگا اور اس کے فلسطینی جدوجہد کے لیے بھی منفی اثرات ہوں گے‘‘۔

دوسری جانب، یورپی یونین، جرمنی، فرانس، برطانیہ، جاپان اور جنوبی کوریا نے بھی امریکی سفارتخانے کی مقبوضہ القدس منتقلی کی حمایت کرنے سے انکار اور اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نتن یاہُو کی درخواست پر اپنے سفارتخانے مقبوضہ القدس لے جانے سے بھی معذرت کرلی ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صدارتی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے یہودیوں اور یہودی رائے دہندگان کی حمایت کے حصول کیلئے بلاسوچے سمجھے جو وعدے کیے تھے اب اُنہی کی وجہ سے واشنگٹن دفاعی نہج پر پہنچ گیا ہے کیونکہ غزہ میں نہتّے فلسطینیوں کی ہلاکتیں دنیا کے سامنے آچکی ہیں اور دنیا بھر کی آنکھیں خود دیکھ چکی ہیں کہ اسرائیل کس طرح کی بربریت اور نسلی امتیاز کا مظاہرہ کررہا ہے۔

مشرقِ وسطیٰ اور امریکہ میں بھی کئی تجزیہ کاروں نے غزہ سمیت فلسطین کی موجودہ صورتحال کو امریکہ کیلئے سیاسی دھچکہ قراردیا ہے جس نے نہ صرف اقوامِ متحدہ بلکہ یورپی یونین سمیت ہر سفارتی محاذ پر امریکہ کو تنہاء کردیا ہے۔ بعض تجزیہ کاروں نے نشاندہی کی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کیجانب سے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نتن یاہُو اور اُن کی حکومت کی حمایت نے امریکہ کی جمہوریت اور انسانی حقوق کے علمبردار کے طور پر اُس کی عالمی حیثیت پر سوالیہ نشانات لگادیے ہیں کیونکہ اسرائیلی فوج نہتّے فلسطینیوں کو تاک تاک کر ماررہی ہے اور پرامن، غیرمسلح احتجاج کرنے والے فلسطینیوں کیخلاف اس طرح کی سفّاکیت جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہے۔