امریکی سفارتخانے کے افتتاح پر اسرائیلی جشن، غزہ میں فلسطینی ہلاک شُدگان کی تعداد 55 ہوگئی

(غزہ۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 29 شعبان 1439ھ) مقبوضہ القدس میں 14 مئی کو متنازع امریکی سفارتخانے کے افتتاح کے دن اسرائیلی فوج نے جشن مناتے ہوئے غزہ میں مبینہ اسرائیلی سرحد پر فلسطینی مظاہرین پر گولیاں چلائیں اور گولہ باری کی جس کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد اب 55 ہوگئی ہے جن میں بچّے بھی شامل ہیں۔

امریکہ نے پیر کے روز مقبوضہ القدس میں اپنے سفارتخانے کا متنازع افتتاح کیا۔ یاد رہے کہ یہودی القدس کو یروشلم کہتے ہیں۔ امریکی سفارتخانے کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کیمطابق تل ابیب سے القدس منتقل کیا گیا ہے۔ اس کی افتتاحی تقریب میں اسرائیل میں امریکی سفیر، امریکی وفد اور اسرائیلی رہنماؤں نے شرکت کی۔ اس موقع پر اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہُو نے فاتحانہ خطاب کیا اور سفارتخانہ مقبوضہ القدس منتقل کرنے کا فیصلہ کرنے والے صدر ٹرمپ کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ دریں اثناء، چند چھوٹے اور قرضوں میں ڈوبے ہوئے ملکوں کے علاوہ کسی ملک نے مقبوضہ القدس (یروشلم) کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم نہیں کیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے علاوہ روس، فرانس، جرمنی، چین، برطانیہ، جاپان، جنوبی کوریا اور کینیڈا سمیت بین الاقوامی برادری کئ بھاری اکثریت نے مقبوضہ القدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ 

دوسری جانب، پیر ہی کے دن غزہ میں مبینہ اسرائیلی سرحد کے نزدیک اسرائیلی فوج نے پُرامن مظاہرہ کرنے والے فلسطینیوں پر بے دریغ گولیاں چلائیں جس سے آخری اطلات آنے تک غزہ کی وزارتِ صحت کیمطابق 55 فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں جبکہ 2700 کے قریب فلسطینی زخمی ہوئے ہیں۔ غزہ کے فلسطینی باشندوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور امریکہ نے امریکی سفارتخانے کے افتتاح کا جشن فلسطینیوں کے خون سے منایا ہے۔ اُردونیٹ کے ذرائع کیمطابق ایک خاتون کا کہنا تھا کہ القدس میں غیرقانونی امریکی سفارتخانے کا قیام ایسا ہی ہے جیسا کہ آئرلینڈ والے لندن پر اور روس واشنگٹن پر قبضہ کرلیں اور چین، جرمنی اور فرانس کے صدر یہ تسلیم کرلیں کہ لندن آئرلینڈ کا دارالحکومت ہے اور واشنگٹن روس کا شہر ہے۔

اس سال 30 مارچ سے شروع ہونے والے فلسطینیوں کے اِن مظاہروں میں اتوار تک 50 کے قریب فلسطینی جاں بحق ہوئے تھے لیکن پیر کے روز صرف ایک دن میں اسرائیلی فوج نے 55 فلسطینیوں کو ہلاک کردیا ہے۔ حالیہ مظاہروں میں جاں بحق ہونے والوں کی مجموعی تعداد اب 105 سے تجاوز کرگئی ہے جبکہ مجموعی طور پر 4000 سے زائد فلسطینی زخمی ہوئے ہیں۔ ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں بچّے بھی شامل ہیں۔

30 مارچ بروز جمعہ ’’یوم الارض‘‘ کے موقع پر شروع ہونے والے فلسطینیوں کے یہ مظاہرے آج 15 مئی تک جاری رہیں گے۔ یہ وہ دن ہے جب 1948ء میں برطانیہ کی پشت پناہی میں اسرائیلی ریاست تخلیق کرکے سات لاکھ فلسطینیوں کو اُن کے گھروں، زمینوں، شہروں، قصبوں اور گاؤں سے بزورِ طاقت بیدخل کیا گیا تھا۔ فلسطینی اِس دن یعنی 15 مئی کو ’’نبکہ‘‘ یعنی ’’یومِ تباہی‘‘ کہتے ہیں اور ہر سال اس موقع پر احتجاجی مظاہرے کرتے ہیں۔ اِس دن کی مناسبت سے فلسطینی اپنے اِس مطالبے کو دہراتے ہیں کہ قبضہ کرلیے گئے اُن کے گھروں، شہروں، زمین، قصبوں اور گاؤں کو واپس لوٹایا جائے اور اُنہیں اپنے مقبوضہ گھروں، شہروں، محلوں اور گاؤں میں واپس آنے دیا جائے۔

یاد رہے کہ 1976ء میں اسرائیلی پولیس نے اسرائیل ہی کے 6 فلسطینی شہریوں کو اُس وقت گولی مار کر ہلاک کردیا تھا جب وہ فلسطین کی ہزاروں ایکڑ زمین پر اسرائیلی حکومت کے قبضے کیخلاف احتجاج کررہے تھے۔ اُس کے بعد سے فلسطینی ہر سال 30 مارچ کا دن ’’یوم الارض‘‘ کے طور پر مناتے ہوئے مغربی کنارے، مشرقی القدس، غزہ اور اسرائیل میں بھی بڑے احتجاجی مظاہرے کرتے ہیں۔  رواں سال 30 مارچ کو بھی فلسطینیوں نے اپنے گھروں اور زمین کی واپسی کا مطالبہ دہرانے کیلئے مظاہرہ کیا اسرائیلی فوج نے اُنہیں لیکن ایک مرتبہ پھر گولیوں اور گولوں سے نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں اب تک 53 فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں۔ یہ مظاہرے مسلسل جاری ہیں۔