(ریاض۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 14 شعبان 1439ھ) امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیئو نے منصب سنبھالنے کے بعد مشرقِ وسطیٰ کے اپنے پہلے دورے کے آغاز میںسعودی عرب کے فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز، ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور وزیرِ خارجہ عادل الجبیر سے ملاقات کی ہے۔ اُن کے دورے کا مقصد ایران کیخلاف پابندیوں کو مزید سخت کرنے اور خطّے میں ایران کی عسکری سرگرمیوں کے سدِباب کیلئے مشاورت کرنا ہے۔
مائیک پومپیئو نے سعودی دارالحکومت ریاض میں شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے ملاقات کی۔ اطلاعات کیمطابق، اِس ملاقات میں واشنگٹن اور ریاض کے دوطرفہ تعلقات، مشرقِ مشرقِ وسطیٰ کے خطے میں ہونے والی تازہ پیشرفت اور جاری تنازعات کے حل کے لیے کوششوں کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا۔اِس موقع پر امریکا میں سعودی عرب کے سفیر شہزادہ خالد بن سلمان، وزیر مملکت مساعد بن محمد العیبان، وزیر خارجہ عادل الجبیر اور امریکی محکمہ خارجہ کے اعلیٰ عہدیدار بھی موجود تھے۔
دریں اثناء، سعودی وزیرِ خارجہ الجبیر اور امریکی وزیرِ خارجہ پومپیئو نے بات چیت کے بعد ایک مُشترکہ اخباری کانفرنس میں گفتگو کی۔ وزیر خارجہ الجبیر نے ایرا ن کے خلاف مزید پابندیاں عائد کرنے کی ضرورت پر زوردیا ہے جبکہ امریکی وزیر خارجہ پومپیئو کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کی سلامتی امریکا کی ترجیح ہے۔
عادل الجبیر نےزور دیا کہ ایران اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی مسلسل خلاف ورزی کررہا ہے اور یمن کے حوثی باغیوں کی مدد کررہا ہے جو تہران کےفراہم کردہ بیلسٹک میزائلوں کو سعودی عرب کی جانب داغ کررہے ہیں۔سعودی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ’’ہم صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ایران، خاص طور پر جوہری سمجھوتے سے متعلق پالیسی کی حمایت کرتے ہیں‘‘۔
امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیئو نے اخباری کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کی سلامتی امریکا کی ترجیح ہے۔ اُنہوں نے ایران کو دہشت گردی کی معاونت کرنے والا سب سے بڑا ملک قراردیتے ہوئے اِس بات پر زور دیا کہ امریکہ دہشتگردی سے نبٹنے کیلئے سعودی عرب کا ساتھ دینے کیلئے تیار ہے۔
پومپیئو نے یہ کہتے ہوئے کہ ایران یمن میں حوثیوں کو ہتھیار فراہم کرکے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کررہا ہے، نشاندہی کہ جوہری سمجھوتہ بھی ایران کے رویے اور کردار میں کوئی تبدیلی لانے میں ناکام رہا ہے جبکہ وہ یمن میں حوثی ملیشیا کو عسکری تربیت اور اسلحہ فراہم کرکے تشدد کی حمایت کررہا ہے۔
سعودی عرب کی حالیہ اقتصادی پیشرفت پر امریکی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ سعودی عرب نے ویژن 2030ء کے تحت جو کچھ حاصل کیا ہے ہم اُس سے متاثر ہوئے ہیں۔
وہ ہفتے اور اتوار کے روز سعودی عرب کے سرکاری دورے کے بعد اسرائیل اور اُردن بھی جا رہے ہیں۔ اُن کے دورہٴ مشرقِ وسطیٰ کو ایران کیخلاف صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سخت پالیسی اور اگلے ماہ جوہری سمجھوتے کی توسیع نہ کرنے پر اتحادی ملکوں سے پالیسی سے متعلق ہم آہنگی کی کوشش کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
توقع ہے کہ صدر ٹرمپ 12 مئی کو ایران پر دوبارہ پابندیاں لگانے کا فیصلہ کرسکتے ہیں اور اگر اُنہوں نے جوہری سمجھوتے کی توسیع نہ کی تو 2015ء میں عالمی طاقتوں اورایران کے درمیان طے پانے والا جوہری سمجھوتہ ختم ہوسکتا ہے۔ ایسی صورت میں خدشہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کا بحران مزید شدّت اختیار کرسکتا ہے جہاں شام اور یمن میں خانہ جنگی جاری ہے جبکہ عراق کے حالات بھی اطمینان بخش نہیں ہیں۔ دوسری جانب، اسرائیل اور فلسطین کے تنازع میں دن بدن کشیدگی بڑھتی جارہی ہے۔