انسانی حقوق کی پاکستانی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری کے ہیومن رائٹس واچ سے اہم سوالات

 (اسلام آباد-اُردونیٹ پوڈکاسٹ 18 ذوالحجہ 1439ھ)  انسانی حقوق کی پاکستانی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) سے کہا ہے کہ وہ مسلمان شہریوں کی اپنی مسجد ہونے، اپنی مرضی کے لباس پہننے اور آزادی سے اپنے مذہبی رسومات کی ادائیگی کرنے کے حق کی یورپی ممالک کی جانب سے تذلیل کرنے پر ادارے کے اقدامات کے حوالے سے بتائے۔

ڈاکٹر شیری مزاری نے ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کو لکھے گئے خط کے جواب میں یہ سوالات اُٹھائے ہیں۔اس تنظیم کے ڈائریکٹر برائے ایشیاء نے اپنے خط میں وزیراعظم عمران خان سے گزارش کی تھی کہ وہ اپنے دورِ حکومت میں انسانی حقوق پر توجہ دیں۔ خط میں حکومت سے کہا گیا ہے کہ نامناسب قوانین اور پالیسیاں ختم کرتے ہوئے قانون اور انصاف کی حکمرانی کے اپنے وعدے کو پورا کرے۔

ہیومن رائٹس واچ نے خط میں زور دیا تھا کہ ’’حکومت 6 شعبوں میں خصوصی توجہ دے جن میں اظہارِ رائے کی آزادی اور مہذب معاشرے پر حملے، آزادیٴ مذہب، خواتین کے خلاف تشدد، تعلیم کی فراہمی، سزائے موت پر روکتھام اور دہشتگردی شامل ہیں‘‘۔

اِس خط کے جواب میں ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان اور حکومت آئین کے مطابق تمام پاکستانیوں کے لیے انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے پر عمل پیرا ہیں۔

اُنہوں نے خط میں بتایا کہ ہمیں تمام شہریوں کے حقوق کے حوالے سے بہتر انداز میں علم ہے اور ہم اس حوالے سے قوانین پر عملدرآمد کے لیے کام کر رہے ہیں جبکہ قومی قوانین کو بین الاقوامی معاہدوں کے ذریعے بین الاقوامی قوانین کے قریب لانے کی ضرورت کا بھی ہمیں علم ہے، ہماری حکومت تمام بین الاقوامی اعتراضات کو دور کرنے پر عمل پیرا ہے لہٰذا ہیومن رائٹس واچ کو انسانی حقوق کے حوالے سے ہمیں ایجنڈا بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔

پاکستانی وزیر نے کہا کہ ہیومن رائٹس واچ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ 90 ممالک میں انسانی حقوق کی کی نگرانی کرتا ہے تو اُمید ہے کہ وہ فلسطین اور بعض یورپی ملکوں میں مسلمانوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں اور بھارت کے زیرِ قبضہ کشمیر میں ریاستی پالیسیوں کے تحت کی جانے والی انسانی حقوق کی شدید پامالی پر بھی آواز اُٹھائے گا۔

ڈاکٹر شیری مزاری نے کہا ’’شاید آپ کی نگرانی کی رپورٹس میری نظر سے نہیں گزریں، مجھے خوشی ہوگی کہ اگر آپ میری یادداشت میں اسے واپس لے آئیں‘‘۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ ’مجھے اُمید ہے کہ ہیومن رائٹس واچ مسلمان شہریوں کو آزادی کے ساتھ اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی اور پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تضحیک سے متعلق چند یورپی ممالک کے اقدامات کا معاملہ بھی اُٹھائے گا‘‘۔

ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ مسلمان شہریوں کی اپنی مسجد ہونے، اپنی مرضی کے لباس پہننے اور آزادی سے اپنے مذہبی رسومات کی ادائیگی کرنے کے حق کی یورپی ممالک کی جانب سے تذلیل کرنے پر انسانی حقوق کے نگراں ادارے کے اقدامات کے حوالے سے بھی بتایا جائے۔

اُنہوں نے خط میں مزید کہا کہ ’’حکومت مثبت تجاویز کو خوش آمدید کہتی ہے تاہم غیر سرکاری تنظیم کو صرف چند علاقوں تک محدود رہنے کے بجائے پوری دنیا میں انسانی حقوق کی یقین دہانی کے وعدے پر عمل پیرا رہنا چاہیئے‘‘۔

یاد رہے کہ ہیومن رائٹس واچ سمیت انسانی حقوق کے دیگر بین الاقوامی ادارے مسلمان ممالک میں انسانی حقوق، خواتین کی آزادی، اظہارِ رائے کی آزادی، مذہبی آزادی اور پھانسی کی سزا ختم کرنے کے مطالبات کرتے رہتے ہیں لیکن یورپ اور امریکہ سمیت مغربی ممالک اور دیگر خطّوں میں مسلمانوں کی مذہبی آزادی پر پابندیاں، مساجد پر حملے، حجاب یا برقع پہننے پر پابندی اور جرمانے اور مغربی ممالک میں مسلمانوں پر حملوں کی مذمّت نہیں کی جاتی اور نہ ہی مغربی ممالک پر یہ زور دیا جاتا ہے کہ وہ مسلمانوں کیخلاف مذہبی تعصب، امتیازی سلوک اور مذہبی آزادی سلب کرنے جیسی انسانی حقوق کی بدترین پامالی ختم کریں۔