برطانوی وزیراعظم نے پاکستان نژاد ساجد جاوید کو برطانیہ کا وزیر داخلہ مقرر کردیا

(لندن۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 15 شعبان 1439ھ)  برطانوی وزیراعظم تھریسا مے نے پاکستانی نژاد رکنِ پارلیمان ساجد جاوید کو برطانیہ کا وزیرِ داخلہ مقررکردیا ہے۔ قبل ازیں، وزیرداخلہ امبر رڈ نے جزائر غرب الہند سے دوسری جنگِ عظیم کے بعد برطانیہ آنے والے تارکینِ وطن کی ونڈرش کہلانے والی نسل کے لوگوں کو غیرقانونی قراردے کر برطانیہ بدر کرنے کی بات کی تھی جس پر اُنہیں سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ بالآخر اتوار کے روز اُنہوں نے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا۔

برطانوی وزیراعظم مے نے محترمہ امبر رڈ کی پالیسی کی حمایت کی تھی جس پر اُنہیں بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس اسکینڈل اور وزیرِ داخلہ امبر رڈ کے استعفیٰ کے بعد وزیراعظم مے نے ساجد جاوید کو وزیرِ داخلہ مقرر کیا ہے۔ لیکن بعض حلقے محترمہ مے سے مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ اسکینڈل کی ذمہ داری قبول کریں۔

برطانوی ذرائع ابلاغ نے ساجد جاوید کی بطورِ وزیرداخلہ تقرری کے بعد اُن کا یہ کہتے ہوئے حوالہ دیا ہے کہ وہ امیگریشن کی پالیسی پر نظرثانی کرکے اسے شفّاف بنائیں گے اور تارکینِ وطن کی عزت اور وقار کا خیال رکھا جائے گا۔

بتایا جاتا ہے کہ ساجد جاوید کا خاندان 1960ء کے عشرے میں برطانیہ منتقل ہوا تھا۔ یاد رہے کہ برطانوی دارالحکومت لندن کے ناظم صادق خان بھی پاکستان نژاد ہیں۔

حالیہ دنوں میں برطانیہ میں نسلی امتیاز اور تارکینِ وطن سے غیرمساوی سلوک کی شکایات عام ہوگئی ہیں جبکہ اسلاموفوبیا بھی عروج پر ہے۔ برطانیہ کے بعض قدامت پسند سیاستدان اور ارکانِ پارلیمان تارکینِ وطن سے متعلق سخت گیر پالیسی پر زور دیتے ہیں لیکن ساجد جاوید اور صادق خان جیسے رہنماء جن کا تعلق تارکینِ وطن کی نسل سے ہے وہ معاشرے میں مساوی سلوک اور مساوی حقوق پر زور دیتے رہے ہیں۔  

ساجد جاوید قبل ازیں کئی اہم عہدوں پر ذمہ داریاں انجام دے چکے ہیں۔ وہ وزارتِ خزانہ کے معاشی اور مالیاتی سیکریٹری رہنے کے علاوہ ثقافتی سیکریٹری اور تجارتی بورڈ کے صدر کاروباری سیکریٹری کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔

برطانیہ میں بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم تھریسا مے نے امیگریشن سے متعلق اپنی اور حکمراں جماعت کی پالیسیوں پر بڑھتی ہوئی عوامی تنقید سے بچنے کیلئے فی الحال ساجد جاوید کو وزیرِ داخلہ مقررکردیا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ درحقیقت اُن کی حکومت تارکینِ وطن کا معاملہ اور اُن کے مسائل حل کرنے میں کس قدر سنجیدگی کا مظاہرہ کرے گی۔