(لندن۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 20 رجب 1439ھ) برطانیہ میں نامعلوم گروپ کیجانب سے اعلان کردہ مبینہ ’’یومِ مسلمان کو سزا دو‘‘ کے موقع پر 3 اپریل کو تشدّد یا دہشتگردی کا کوئی قابلِ ذکر واقعہ رونما نہیں ہُوا جس پر مسلمانوں سمیت دیگر برادریوں نے سکون کا سانس لیا ہے۔ یاد رہے کہ مارچ کے وسط میں لندن سمیت برطانیہ کے کئی علاقوں میں نامعلوم گروپ کیجانب سے ایک نفرت انگیز اور نسلی تفریق پر مبنی خط مختلف لوگوں کو کئی مقامات پر بھیجا گیا تھا جس میں 3 اپریل کو ’’یومِ مسلمان کو سزا دو‘‘ قراردیتے ہوئے عام لوگوں کو ترغیب دی گئی تھی کہ اِس دن مسلمانوں کو سزا دیں جبکہ تشدّد کرنے، مارنے، مسجد پر حملہ کرنے اور مسلمان خواتین کا حجاب کھینچنے سمیت ایسے ہی دیگر نفرت انگیز کام انجام دینے والوں کو امتحان کی طرز پر پوائنٹس کی ایک فہرست بھی جاری کی گئی تھی۔
اِس خط کے بعد برطانیہ بھر میں مسلمانوں اور دیگر برادریوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی۔ برطانیہ کے دارالحکومت لندن سمیت کئی شہروں میں مسلمانوں، سیاہ فام لوگوں اور دیگر غیرسفید فام نسل کے لوگوں کیخلاف قتل سمیت کئی پُرتشدّد واقعات ہوتے رہے ہیں۔
لندن کے ناظم صادق خان نے ٹوئیٹر پر ایک بیان جاری کیا ہے جس میں اُنہوں ںے کہا ہے کہ اُنہیں رواں ہفتے اور اس سال کئی پُرتشدّد ہلاکتوں پر غصّہ اور رنج وغم ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ یہ بہت دیکھنا دکھ کی بات ہے کہ بہت سی جوان زندگیاں ختم ہوگئیں اور اُن کے اہلِ خانہ نااُمیدی کا شکار ہوئے۔ ناظم صادق خان نے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کیلئے مختلف برادریوں، خاندانوں، دوستوں اورشہر میں رہنے والے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ مطلوبہ معلومات فراہم کرنے میں تعاون کریں۔
مذکورہ نفرت انگیز خط منظر عام پر آنے کے بعد برطانیہ میں مسلمانوں کو خبردار کیا جارہا تھا کہ وہ گھر سے باہر جانے میں خاص طور پر 3 اپریل کو احتیاط کریں یہانتک کہ اپنے بچّوں کو اسکول نہ بھیجیں۔ مزید برآں، مسلمان خواتین سے کہا جارہا تھا کہ وہ کسی بھی نفرت کا شکار ہونے سے بچنے کیلئے حجاب نہ پہنیں۔
لیکن اطلاعات کیمطابق لندن یا برطانیہ کی پولیس ابھی تک یہ پتہ لگانے میں ناکام رہی ہے کہ مسلمانوں کیخلاف نفرت پر مبنی دھمکی آمیزخط کس نے جاری کیا تھا۔ مسلمانوں کے علاوہ برطانیہ میں دیگر برادریوں کے لوگوں نے بھی مذکورہ نفرت آمیز خط کی مذمّت کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ نسلی امتیاز اور تعصب پر مبنی رجحانات کے خاتمے کیلئے حکومت عملی اقدامات کرے۔ کُچھ لوگوں نے نشاندہی کی ہے کہ بعض برطانوی ذرائع ابلاغ مسلمانوں کیخلاف منفی خبروں کو تو بہت زیادہ اُجاگر کرتے ہیں لیکن برطانیہ ہی کے مسلمانوں کیخلاف تعصب اور دھمکیوں کی اطلاعات کو نشر یا شائع نہیں کرتے۔
دوسری جانب، برطانیہ کی مسلمان برادری نے مذکورہ دھمکی آمیز خط کے منظرعام پر آنے پر کسی خوف کے بغیر زیادہ یکجہتی کا مظاہرہ کیا جبکہ دیگر برادریوں کے لوگوں نے بھی مسلمانوں کیساتھ مفاہمت اور یکجہتی کا اظہار کیا۔ اُنہوں نے حکومت اور سیاستدانوں پر زور دیا ہے کہ برطانیہ سے تعصب، نفرت اور نسلی امتیاز کے رجحانات کو جڑسے مٹانے کیلئے عملی اقدامات کریں۔
برطانیہ میں بڑھتے ہوئے نسلی تعصب، اسلاموفوبیا اور سماجی عدم مساوات کے تناظر میں ایشیائی، افریقی، عرب اور لاطینی نژاد برطانوی شہریوں میں عدم تحفظ کا إحساس گہرا ہوتا جارہا ہے جبکہ پولیس کے یکطرفہ رویّے پر بھی عوام غصّے کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں جو لوگوں کیمطابق سفید فام لوگوں سے ترجیحی برتاؤ کرتی ہے۔
یاد رہے کہ مارچ میں برطانیہ کے دارالحکومت لندن سمیت دیگر شہروں میں نسلی تعصب اور اسلاموفوبیا کیخلاف بڑے مظاہرے ہوئے تھے جن میں ارکانِ پارلیمان اور سماجی شخصیات سمیت ایشیائی، افریقی، عرب اور لاطینی نژاد برطانوی شہریوں سمیت ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔
لندن، کارڈِف اور گلاسکو سمیت دیگر شہروں میں ہونے والے ان مظاہروں کا اہتمام ’’نسلی تعصب کیخلاف کھڑے ہوجاؤ‘‘ نامی گروپ نے کیا۔ مظاہرین نے نسلی تعصب اور اسلاموفابیا کیخلاف اور مہاجرین وتارکینِ وطن کے حقوق کی حمایت میں بینرز اور کتبے اُٹھارکھے تھے۔ بہت سے شُرکاء نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور برطانیہ سمیت بعض دیگر یورپی ملکوں کے مخصوص سیاستدانوں کو نسل پرست، اسلام مخالف اور تعصب پسند قراردیتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ ملکوں اور معاشرے میں نفرت اور تعصب کا پرچار کرنے والے سیاستدانوں پر پابندی عائد کرکے اُنہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
ہم آپ کا آن لائن تجربہ بہتر بنانے کیلئے کُوکیز استعمال کرتے ہیں۔ اُردونیٹ پوڈکاسٹ ڈاٹ کام کی ویب سائٹ کا استعمال جاری رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ہماری کُوکیز و رازداری طریقِ عمل پالیسی اور شرائط وضوابط سے متفق ہیں۔ مزید آگاہی کیلئے رازداری طریقِ عمل دیکھیے۔منظوررازداری طریق عمل