ترکی کی عدالت نے بغاوت میں ملوث 100 سے زائد فوجیوں کو عمر قید کی سزاسنادی

(استنبول۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 07 رمضان 1439ھ) ترکی کی ایک عدالت نے ملک کے صدر رجب طیب اردوغان کی حکومت کیخلاف بغاوت اور اُنہیں قتل کرنے کی سازش میں ملوث 106 فوجی اہلکاروں کو عمر قید بامشقّت کی سزا سنادی ہے۔ ازمیر صوبے کی عدالت نے سابق فوجی اہلکاروں کو آئینی حکومت اور آئینی احکامات معطل کرنے کی کوشش کی پاداش میں سنگین نوعیت کی عمر قید کی سزا سنائی ہے۔

یاد رہے کہ جولائی 2016ء میں ترک فوج کے ایک مخصوص باغی گروپ نے حکومت کا تختہ اُلٹنے اور صدر اردوغان کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن فوج کے اندر ملکی آئین اور حکومت سے وفادار اراکین اور عوام کیجانب سے بروقت مزاحمت نے اس بغاوت کو ناکام بنادیا تھا۔ ترک حکومت کیمطابق اس سازش میں فیتو نامی مذہبی فرقہ اورامریکہ میں مقیم اس کا سرغنہ فتح اللہ گولن ملوث تھے۔

عدالت کیجانب سے سزا پانے والوں میں ترک فضائیہ کے سابق سربراہ اور فوجی کمان کے سربراہ شامل ہیں۔ بغاوت کی اس ناکام کوشش میں 250 افراد جاں بحق اور 2 ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے جبکہ 24 باغیوں کو ہلاک کردیا گیا تھا۔ ترکی امریکہ سے مطالبہ کررہا ہے کہ بغاوت کے منصوبے ساز فتح اللہ گولن کو امریکہ سے بیدخل کرکے اُس کے حوالے کیا جائے لیکن ابھی تک اس سلسلے میں امریکہ نے کوئی عملی اقدامات نہیں کیے جس کی وجہ سے واشنگٹن اور انقرہ کے تعلقات میں تلخی پائی جاتی ہے۔ امریکہ نیٹو کے اپنے اتحادی ملک ترکی کی درخواست کو مسلسل نظر انداز کررہا ہے۔ ترکی میں بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ کا جولائی 2016ء میں ترکی کی فوجی بغاوت میں کردار کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ فیتو کے سرغنہ گولن کو ترکی کے حوالے نہ کرنا اس خیال کو تقویت دیتا ہے کہ امریکہ اس تنظیم اور اس کے سرغنہ کی پشت پناہی کررہا ہے۔

اس بغاوت کو ناکام بنانے میں ترکی کے عام شہریوں ںے اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ بغاوت کی اطلاع ملتے ہی سڑکوں پر نکل آئے اور شاہراہوں و پُلوں پر فوجیوں کے ٹینکوں اور گاڑیوں کے سامنے آگئے اور اُنہیں پیشقدمی نہیں کرنے دی۔ بعد ازاں بغاوت ناکام ہونے کے بعد حکومت نے ملک میں ہنگامی حالت نافذ کی اور سازش میں ملوث تنظیم سے تعلق رکھنے والے 50 ہزار سے زائد لوگوں کو گرفتار کیا جبکہ مذکورہ تنظیم سے رابطے میں ہونے کے الزام میں ایک لاکھ سے زائد سرکاری اہلکاروں کو معطل کیا گیا ہے۔

ملک میں ہنگامی حالت نافذ کرنے اور فیتو نامی مذہبی فرقے کے اراکین کو بڑے پیمانے پر گرفتار کرنے پر مغربی ممالک نے ترکی کی حکومت اور صدر اردوغان پر سخت تنقید کی ہے اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ملک میں آمریت قائم ہورہی ہے۔ لیکن ترک حکومت کا کہنا ہے کہ بغاوت اور اس کے بعد کے خطرات کے تناظرمیں اس قسم کے اقدامات ناگزیر ہیں۔