(رملہ ۔ اُردونیٹ پوڈکاسٹ ۔ 4 فروری 2018) تنظیم آزادی فلسطین نےاسرائیل کے ساتھ ہرطرح کے سیاسی، انتظامی ،اقتصادی اور سلامتی روابط ختم کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے تمامتر توجہ سلامتی کونسل میں صدر محمود عباس کے خطاب پرمرکوز کرنے پر زور دیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق ہفتے کے روز رملہ میں پی تنظیم آزادی فلسطین کے اعلیٰ ترین عہدیداروں کی کمیٹی کے اجلاس میں کہا گیا ہے کہ 20 جنوری کو صدر محمود عباس سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کریں گےلہٰذا اس وقت ہماری تمام تر توجہ اس خطاب کو کامیاب بنانے پرمرکوز ہونی چاہیے۔
تنظیم آزادی فلسطین کا کہنا ہے کہ صدر محمود عباس کا سلامتی کونسل سے خطاب اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ فلسطینی عالمی قانون اور بین الاقوامی آئینی اداروں کے ساتھ مل کر تنازع فلسطین حل کرنے کے خواہاں ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی قوم عالمی قوانین اور بین الاقوامی قراردادوں کی روشنی میں القدس کو دارالحکومت بناتے ہوئے چار جون 1967ء کی حدود میں آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کوششیں جاری رکھے گی۔
تنظیم آزادی فلسطین نے ایک بیان میں فلسطینی انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ جاری تمام منصوبوں کو ختم کرتے ہوئے یہودی ریاست سے سلامتی، اقتصادی، سیاسی، سفارتی، اورانتظامی روابط ختم کردے۔ اس کے ساتھ ساتھ فلسطینی انتظامیہ پیرس میں اسرائیل کے ساتھ طے پائے اقتصادی سمجھوتے سے بھی باہر آجائے اور آزاد قومی معاشی منصوبے کی تشکیل پر توجہ مرکوز کرے۔
بیان میں مرکزی کونسل کے فیصلوں کو عملی شکل دینے کے لیے، فلسطین کو تسلیم کرنے تک اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ معطل کرنے، سنہ 1967ء کی حدود میں آزاد فلسطینی ریاست کے قیام، القدس کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت تسلیم کرنے، فلسطین میں یہودی آباد کاری کی روک تھام اور فلسطین پر یہودی قبضے کے خاتمے کے لیے کمیٹی تشکیل دینے پر زور دیا گیا۔
اس کے ساتھ ساتھ فلسطینی انتظامیہ پر زور دیا گیا کہ وہ فلسطینیی قوم کے خلاف اسرائیلی ریاست کے جرائم کی روک تھام، نسلی امتیاز،، فلسطینیوں کے قتل عام، غرب اردن، وادی اردن اور دیگر فلسطینی شہروں میں جاری اسرائیلی انتقامی کارروائیوں کی روک تھام کے لیے بین الاقوامی عدالت انصاف سے رجوع کرے۔
تنظیم آزادی فلسطین نے ایک بار پھرامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان القدس کو مسترد کرتے ہوئے امریکا سے مطالبہ کیا کہ وہ القدس کے بارے میں عالمی قراردادوں پر عمل درآمد کرے۔ بیان میں امریکا سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ وہ القدس کے بارے میں اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے۔