(اسلام آباد-اُردونیٹ پوڈکاسٹ 15 ذوالقعدہ 1439ھ) پاکستان کے عام انتخابات 2018ء میں تحریکِ انصاف سے شکست کھا جانے والی جماعتوں کی اسلام آباد میں منعقدہ کُل جماعتی کانفرنس ناکام ہوگئی ہے جبکہ ن لیگ کے سربراہ شہباز شریف نے اسمبلی میں حلف نہ اُٹھانے کی تجویز سے یہ کہتے ہوئے کنارہ کشی اختیار کی کہ وہ اِس معاملے پر اپنی جماعت کے دیگر اراکین سے مشاورت کے بعد حتمی فیصلہ کریں گے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے حزبِ اختلاف کی اِس کُل جماعتی کانفرنس میں شرکت سے گریز کیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ مولانا فضل الرحمٰن کی تجویز سے متفق نہیں ہے جنہوں نے اعلان کررکھا تھا کہ آصف زرداری نے کانفرنس میں شرکت کریں گے۔
اجلاس کے بعد مشترکہ اخباری کانفرس میں جمیعتِ علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ شہباز شریف کی میزبانی میں کانفرنس ہوئی جس میں متحدہ مجلسِ عمل، عوامی نیشنل پارٹی کے صدر اسفند یار ولی، حاصل بزنجو، محمود خان اچکزئی، فاروق ستار، آفتاب خان شیرپاؤ، مصطفیٰ کمال نے شرکت کی اور مکمل اتفاق کے ساتھ 25 جولائی کے انتخابات کو مکمل طور پر مسترد کردیا ہے۔یاد رہے کہ شہباز شریف کے علاوہ مولانا فضل الرحمٰن اور جماعتِ اسلامی کے امیر سراج الحق سمیت حزبِ اختلاف کی اِن تمام جماعتوں کے سربراہان عام انتخابات میں ہار چُکے ہیں اور اسمبلی میں استعفیٰ اُٹھانے سے پہلے ہی قاصر ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ شفاف انتخابات کے انعقاد کے مطالبے پر اتفاق کیا گیا ہے، ان جماعتوں کے جولوگ منتخب ہوئے ہیں وہ حلف نہیں اُٹھائیں گے تاہم شہباز شریف نے اس معاملے پر پارٹی سے مشاورت کی مہلت مانگی ہے تاکہ پارٹی سے مشاورت کرکے آگاہ کرسکیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے یہ اعلان بھی کیا کہ ہم انتخابات دوبارہ کروانے کے لیے تحریک چلائیں گے، احتجاجی مظاہرے ہوں گے اور اس کی ترتیب کے لیے ایک کمیٹی بنائی جائے گی جو لائحہ عمل اور ترتیب طے کریگی اور کارکنوں کی رہنمائی کرے گی۔
اُنہوں نےیہ دھمکی بھی دی کہ ’’ہم دیکھیں گے کہ یہ اس ایوان کو کس طرح چلاتے ہیں، ہم انہیں ایوان میں داخل ہونے نہیں دیں گے‘‘۔ لیکن دیگر رہنماؤں نے مولانا فضل الرحمٰن جیسے لہجے میں بات نہیں کی اور اُن کے چہرے سوالیہ نشان تھے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس اجلاس میں ایک بڑی جماعت پیپلز پارٹی کی عدم شرکت اور سابق حکمراں جماعت ن لیگ کے سربراہ شہباز شریف کی جانب سے مشاورت کیلئے مہلت مانگنے کے بہانے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حزبِ اختلاف کی جماعتیں کوئی بڑی یا مؤثر تحریک چلانے سے قاصر ہیں۔ ن لیگ کے قریبی ذرائع کیمطابق شہباز شریف جانتے ہیں کہ اسمبلی میں نہ جانے کی صورت میں اُن کی جماعت کے کئی ارکان بغاوت کرکے تحریکِ انصاف میں شمولیت اختیار کرسکتے ہیں۔ دوسری جانب، پیپلز پارٹی سندھ میں حکومت بنانے کا کھلا موقع کسی طرح ہاتھ سے نہیں جانے دیگی کیونکہ اُسے بھی بغاوت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
ہم آپ کا آن لائن تجربہ بہتر بنانے کیلئے کُوکیز استعمال کرتے ہیں۔ اُردونیٹ پوڈکاسٹ ڈاٹ کام کی ویب سائٹ کا استعمال جاری رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ہماری کُوکیز و رازداری طریقِ عمل پالیسی اور شرائط وضوابط سے متفق ہیں۔ مزید آگاہی کیلئے رازداری طریقِ عمل دیکھیے۔منظوررازداری طریق عمل