(جنیوا۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 27 جمادی الثانی 1439ھ) میانمار میں سرکاری افواج اور بودھ انتہاء پسندوں کیجانب سے قتل وغارت کے بعد ریاست راکھائن سے پناہ کیلئے بنگلہ دیش پہنچنے والے روہنگیا پناہ گزینوں کی وطن واپسی سوالیہ نشان بن گئی ہے کیونکہ اطلاعات کیمطابق علاقے میں میانمار کے فوجیوں کو بڑی تعداد میں تعینات کیا جارہا ہے جس سے اشارہ ملتا ہے کہ نا صرف روہنگیا مسلمانوں کی مبینہ نسل کشی بلکہ اُن کے گاؤں وگھروں کے نشانات مٹانے کیلئے علاقے کو مکمل صاف کیا جارہا ہے جبکہ باقی رہ جانے والے گھروں کو بھی تیزی سے مسمار کیا جارہا ہے۔ مقامی روہنگیا مسلمانوں کا کہنا ہے کہ نسل کشی اور مظالم کے ثبوت مٹانے کیلئے میانمار کی حکومت کی طرف سے یہ اقدامات کیے جارہے ہیں۔
انسانی حقوق کے ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک تازہ رپورٹ کیمطابق میانمار کی فوج نے اُن علاقوں پر قبضہ کرلیا ہے جہاں سے روہنگیا مسلمان قتل و تشدّد سے جانیں بچاکر بنگلہ دیش فرار ہوئے تھے۔ یاد رہے کہ میانمار کی عملی قائد آن ساں سُوچی نے عالمی دباؤ اور تنقید کو کم کرنے کیلئے اشارہ دیا تھا کہ بنگلہ دیش چلے جانے والے روہنگیا مسلمانوں کو اُن کے علاقوں میں دوبارہ آباد کیا جائے گا لیکن ابھی تک میانمار اور بنگلہ دیش میں اس سلسلے میں کوئی باضابطہ سمجھوتہ طے نہیں ہوسکتا ہے جس کے باعث روہنگیا لوگوں کی میانمار واپسی سوالیہ نشان بن گئی ہے۔
اقوامِ متحدہ کیمطابق گزشتہ سال اگست کے اواخر سے لگ بھگ سات لاکھ روہنگیا افراد بنگلہ دیش میں پناہ لے چکے ہیں تاہم آزاد ذرائع یہ تعداد 10 لاکھ کے قریب بتاتے ہیں۔ ان پنا گزینوں میں بچّے، خواتین اور معمر افراد بڑی تعداد میں شامل ہیں۔
بنگلہ دیش میں قائم عارضی پناہ گزین کیمپوں میں مقیم روہنگیا مسلمانوں کو اس سال مون سون کی بارشوں کے آغاز سے قبل رہائش کی بہتر سہولیات، خوراک اور طبّی امداد کی فوری ضرورت ہے۔ ترکی کے امدادی علاقے بنگلہ دیش میں روہنگیا مسلمانوں کی مدد کیلئے کئی کیمپ قائم کرچکے ہیں لیکن پناہ گزینوں کی تعداد بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے فوری طور پر مزید امداد اور انتظامات کی ضرورت ہے۔ ترکی کی خاتونِ اوّل امینہ اردوغان نے گزشتہ سال بنگلہ دیش میں روہنگیا پناہ گزینوں کیمپوں کا دورہ کیا تھا۔