سب سے پہلے مشرق وسطیٰ کو ایٹمی اسلحے سے پاک ہونا چاہیئے: اردوغان

(استنبول۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 07 رمضان 1439ھ) ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے کہا ہے کہ سب سے پہلے مشرقِ وسطیٰ کو ایٹمی اسلحے سے پاک ہونا چاہیئے۔ وہ حکمراں انصاف اور ترقّی جماعت کے مرکزی دفتر میں غیرملکی سفیروں کے اعزاز میں دی گئی دعوتِ افطار میں خطاب کررہے تھے۔

صدر اردوغان نے بظاہر ایران کے جوہری منصوبے پر امریکہ کے تضادات کے حامل رویے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح دنیا کے 31 ممالک کے 450 جوہری بجلی گھر ہمارے لئے خطرہ نہیں ہیں اُسی طرح نہایت سخت کنٹرول کی صورت میں دیگر کے جوہری بجلی گھر بھی ہمارے لئے خطرہ نہیں بنیں گے۔

اُنہوں نے اسرائیل کا نام لیے بغیر مشرقِ وسطیٰ میں ایٹمی ہتھیاروں کے حقیقی خطرے کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے علاقے اور ملک کیلئے اصل خطرہ ایٹمی ہتھیار ہیں۔ اُنہوں نے زور دیا کہ ’’مشرق وسطیٰ کو سب سے پہلے ایٹمی اسلحے سے صاف ہونا چاہیے‘‘ اور کہا کہ ’’بلکہ میں اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ کہتا ہوں کہ پوری دنیا کو ایٹمی اسلحے سے پاک ہونا چاہیے۔ یاد رہے کہ اسرائیل اعلانیہ ایٹمی طاقت تو نہیں ہے لیکن ماہرین اور بہت سے ممالک کو یقین ہے کہ اسرائیل کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں۔ اسرائیل اس کی تردید یا تصدیق نہیں کرتا۔

صدر اردوغان نے پندرہ ہزار سے زائد ایٹمی ہتھیار رکھنے والے ممالک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسی صورت میں کہ جب یہ ممالک آسانی سے اپنے جوہری اسلحے کو استعمال کر رہے ہیں تو دوسرے ممالک کا جوہری اسلحہ ان کے لئے کیوں خطرہ بن رہا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ’’اگر انصاف کی بات کی جائے اور منصفانہ روّیہ اختیار کیا جائے تو ایٹمی ہتھیاروں کے مالک ممالک کا دوسرے ملکوں کے  جوہری بجلی گھروں کو خطرے  کے طور پر دکھانا عالمی رائے عامہ میں کوئی وقعت نہیں رکھتا۔

جناب اردوغان کا کہنا تھا کہ ترکی جوہری توانائی کے پُرامن مقاصد کیلئے استعمال کی حمایت کرتا ہے اور کہا کہ ہمارے خیال میں ہر ملک کو یہ حق حاصل ہے اور توانائی کی ضروریات اس طریقے سے پورا کرنے کے خواہش مند ممالک کے حق کا احترام کیا جانا ضروری ہے۔

اُنہوں نے ایران کیساتھ جوہری سمجھوتے کی پاسداری جاری رکھنے پر دیگر ممالک کو سراہتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے ایران کے ساتھ طے شدہ جوہری سمجھوتے سے دستبردار ہونے کے مقابلے میں اس میں شامل دیگر ممالک کا سمجھوتے پر قائم رہنا ہمارے نزدیک نہایت مثبت طرز عمل ہے۔

امریکی حکومت کیجانب سے اسرائیل میں اپنے سفارتخانے کو تل ابیب سے مقبوضہ القدس منتقل کرنے اور اسے یکطرفہ طور پر اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے پر تنقید کرتے ہوئے صدر اردوغان نے کہا کہ ’’امریکی انتظامیہ اپنے تازہ ترین اشتعال انگیز اقدام کی وجہ سے اسرائیل کی طرف سے ہونے والی نسل کشی میں فریق بن گئی ہے‘‘۔ اُنہوں نے کہا کہ میں واضح طور پربتارہا ہوں کہ اب امریکہ کے ہاتھوں میں فلسطینی بچّوں کا لہو ہے اور اب امریکہ جمہوریت، انسانی حقوق، آزادی اور امن کیلئے جو بھی بیان دے گا اُس کی قطعی کوئی قدر نہیں ہوگی‘‘۔

18 مئی کو فلسطین کی صورتحال پر استنبول میں منعقدہ اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی کے سربراہ اجلاس کا ذکر کرتے ہوئے صدر اردوغان نے کہا کہ ہم نے 72 گھنٹے کے اندر اندر غیرمعمولی ہنگامی اجلاس منعقد کیا جس میں 50 ملکوں نے شرکت کی۔ اُنہوں نے کہا کہ اس سربراہ اجلاس نے واضح کیا کہ ’’ہم القدس پر اپنے حقوق سے متعلق کوئی رعایت نہ دینے کیلئے پُرعزم ہیں‘‘۔