سعودی شیخ ڈاکٹر عبداللہ المطلق نے”عبایا” سے متعلق اپنے فتوے کی وضاحت کر دی

(جدہ۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 12 فروری 2018) سعودی عرب میں اعلیٰ علماء کمیٹی کے رکن اور شاہی دیوان کے مشیر شیخ ڈاکٹرعبداللہ المطلق نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں اُنہوں نے خواتین کو “عبایا” کا پابند نہ ہونے سے متعلق اپنے فتوے کے حوالے سے وضاحت پیش کی ہے۔ سعودی عرب اور کئی عرب ممالک میں اُن کے بیان پر بڑا تنازع کھڑا ہو جانے کے بعد یہ وضاحت سامنے آئی ہے۔

بیان میں شیخ المطلق نے اس بات کی تردید کی ہے کہ ان کا فتویٰ پردہ اُتار دینے کی ترغیب دیتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ “نداء الاسلام ریڈیو پر یہ سوال کیا گیا تھا کہ آیا عبایا اور لباس کی کوئی خاص متعین صورت ہے۔ اس کا جواب دیتے ہوئے میں نے مسئلہ واضح کیا کیوںکہ  ریڈیو نشریات ساری دنیا میں نشر ہوتی ہیں لہٰذا میں نے بھی یہ جواب تمام مسلمان بہنوں کو سامنے رکھ کر دیا”۔

شیخ المطلق نے واضح کیا کہ مسلمان عورت کا شریعت کی مقرر کردہ شرائط کے ساتھ پردے کی پابندی کرنا یہ اللہ تعالٰی کی اطاعت، ایک عبادت اور عورت اور معاشرے کے لیے پاک دامنی کا ذریعہ ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ ہر وہ لباس جس سے پردے کا مقصد پورا ہو اور وہ شریعت کی شرائط پوری کرے تو وہ قابل قبول حجاب کی صورت ہے خواہ سر کے اُوپر سے عبایا کی شکل میں ہو یا اس کے سوا کسی اور شکل میں۔ بنیادی شرط یہ ہے کہ یہ تمام بدن کو ڈھانپنے والا ہو اور اس میں جسم کے خدوخال واضح نہ ہوں۔ اس میں مردوں اور فاجر خواتین کے ساتھ مشابہت نہ ہو۔

شیخ المطلق کا کہنا ہے کہ اگر حجاب یا پردہ مذکورہ شرعی صفات کا حامل ہو تو پھر دنیا بھر کی مسلمان خواتین کو ان کے مختلف ممالک اور مختلف مسالک میں اسلامی حجاب کے نام سے کسی مخصوص لباس کا پابند نہیں بنایا جانا چاہیے۔ اُنہوں نے کہا کہ ہر معاشرے کی اپنی خصوصیات اور اقدار ہوتی ہیں لہٰذا اصل مقصود پردے کی فرضیت کی حکمت کو پورا کرنا ہے۔

قبل ازیں شیخ ڈاکٹر عبداللہ المطلق کا یہ بیان سامنے آیا تھا کہ خواتین کے لیے عبایا پہننے کی پابندی لازم نہیں اس لیے کہ شریعت میں مقصود “پردہ” ہے خواہ وہ عبایا کے ذریعے ہو یا کسی اور طریقے سے ہو۔ اُن کا مزید یہ کہتے ہوئے حوالہ دیا گیا تھا کہ عالم اسلام میں 90 فیصد باوقار خواتین عبایا کا استعمال نہیں کرتیں بلکہ دیگر چیزوں کے استعمال سے پردہ کرتی ہیں۔

کئی ذرائع ابلاغ نے شیخ المطلق کے حوالے سے یہانتک لکھ دیا تھا کہ خواتین کیلئے اب عبایا کہ ضرورت نہیں ہے۔ جبکہ اُن کے وضاحتی بیان کیمطابق اصل بات یہ کہی گئی تھی کہ عبایا پہننا لازمی نہیں ہے بلکہ ہر وہ لباس پہنا جاسکتا ہے جو شریعت کے تقاضےاور پردے کا مقصد  پورا کرتا ہو۔