سعودی عرب میں ملازمتوں کے مسائل سنگین ہوگئے، لاکھوں تارکین وطن کی واپسی

(جدہ۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 21 شعبان 1439ھ)  سعودی عرب میں غیرملکیوں کیلئے ملازمتوں کے مسائل سنگین تر ہوتے جارہے ہیں جس کے باعث اطلاعات کیمطابق گزشتہ 18 ماہ کے عرصے میں آٹھ لاکھ سے زیادہ تارکینِ وطن واپس جاچکے ہیں جن میں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔

سعودی عرب کی معاشی صورتحال اور مقامی لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کیجانب حکومتی توجہ مبذول ہونے کی وجہ سے ملک میں غیرملکی تارکینِ وطن کیلئے دن بدن مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے جبکہ گزشتہ سال کی آخری سہ ماہی سے یہ شکایات عام ہونے لگی تھیں کہ غیرملکی ملازمین کو اپنی کمپنیوں کیجانب سے کئی کئی ماہ کی تنخواہیں نہیں دی گئیں۔

اطلاعات کیمطابق صرف رواں سال کے ابتدائی چند ماہ میں لگ بھگ دولاکھ 70 ہزار کارکنان سعودی عرب سے واپس جاچکے ہیں جبکہ خدشہ ہے کہ آئندہ تین چار مہینوں میں مزید کئی لاکھ غیرملکی کارکنان کے پاس اپنے وطن واپسی کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہوگا۔

طویل عرصے سے سعودی عرب میں کام کرنے والے بہت سے غیرملکی کارکنان حالات مزید خراب ہونے سے قبل اس لیے بھی اپنے وطن جانے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں کہ خود اپنی مرضی سے کام چھوڑ کر جانے کی صورت میں اُنہیں اپنی کمپنیوں سے مالی فوائد مل سکتے ہیں لہٰذا وہ اس موقع سے فائدہ اُٹھانے کو ترجیح دے سکتے ہیں۔

سعودی قوانین کیمطابق نجی شعبے میں غیرملکی ملازمین کو مدتِ ملازمت مکمل ہونے پر یا طویل ملازمت کے بعد خود کام چھوڑنے پر بھی ایک طے شُدہ رقم ملتی ہے۔ بہت سے غیرملکی کارکن حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس رقم کے حصول کے بعد سعودی عرب سے واپس جارہے ہیں۔

سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ’’تصوّر 2030‘‘ کا ایک معاشی منصوبہ پیش کیا ہے جس کے تحت مملکتِ سعودی عرب کی معیشت کا تیل پر انحصار ختم کرکے اِسے جدید اور پہلے سے زیادہ مستحکم کیا جائے گا۔ امکان ہے کہ سعودی عرب میں نئے حالات کیمطابق روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔