شام پر امریکہ، برطانیہ اور فرانس کا حملہ، ترکی اور شامی حزب اختلاف کیجانب سے خیرمقدم

(انقرہ۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 28 رجب 1439ھ)  ترکی اور بشارالاسد مخالف شامی حزبِ اختلاف نے شام پر امریکہ، برطانیہ اور فرانس کے حملے کا خیرمقدم کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ صرف کیمیائی ہتھیاروں کے اہداف کو نشانہ بنانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

ترکی کی وزارتِ خارجہ کیجانب سے جاریکردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’ترکی کارروائی کا خیرمقدم کرتا ہے جس نے دوما میں ہونے والے اُس حملے کے تناظر میں انسانی ضمیر کو اطمینان دیا جس کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ اسد حکومت نے کیا تھا۔

ترکی کے صدارتی ترجمان ابراہیم کالِن نے بھی شام پر حملوں کا خیرمقدم کیا ہے۔ اُنہوں ںے اپنے بیان میں کہا کہ خطّے میں عدم استحکام کو ختم کرنے کیلئے صرف کیمیائی ہتھیاروں کو تباہ کرنے پر توجہ مرکوز کرنا کافی نہیں ہوگا بلکہ مقصد یہ ہونا چاہیئے کہ شام میں جنگ کا خاتمہ ہو۔

دریں اثناء، شامی حزبِ اختلاف کی اعلیٰ ترین مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ نصر الحریری نے مطالبہ کیا ہے کہ شام کے شہریوں کے خلاف کیمیائی یا روایتی ہر طرح کے حملوں کو روکا جانا چاہیے۔ ایک بیان میں اُنہوں نے نشاندہی کی ہے کہ’’بیرل بموں، کلسٹر بموں اور دیگر روایتی ہتھیاروں کا نشانہ بننے والے شامیشہریوںکی تعداد کیمیائی ہتھیاروں سے متاثر ہونے والوں سے کئی گُنا زیادہ ہے‘‘۔

الحریری نے مزید کہا کہ ہو سکتا ہے کہ شامی حکومت کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال دوبارہ نہ کرے مگر وہ عالمی برادری کی جانب سے غیر ممنوعہ ہتھیاروں کے بے دریغ استعمال میں ہر گز نہیں ہچکچائے گی جن میں بیرل بم، کلسٹر بم، وِنگڈ میزائل اور قلیل مقدار میں کلورین شامل ہے۔