شام پر امریکی حملے کی مذمّت کیلئے سلامتی کونسل میں روسی قرارداد مُسترد، متنازع حملے تنقید کی زد میں

(نیویارک۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 29 رجب 1439ھ)  اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں شام پر امریکہ، برطانیہ اور فرانس کے مُشترکہ حملے کی مذمت کیلئے رُوس کی پیش کردہ قرارداد مُسترد ہوگئی ہے۔ روس کی قرارداد کے حق میں اُس کے علاوہ چین اور بولیویا نے ووٹ دیا جبکہ آٹھ ملکوں نے مخالفت میں ووٹ دیا اور چار ملکوں نے رائے دہی میں حصّہ نہیں لیا۔

روس نے یہ مؤقف اختیار کرتے ہوئے مذمّتی قرارداد کی منظور پر زور دیا تھا کہ شام پر امریکہ، برطانیہ اور فرانس کے مشترکہ حملے کھلی جارحیت اور عالمی قوانین کے ساتھ ساتھ اقوامِ متحدہ کے دستور کی خلاف ورزی ہیں۔

سلامتی کونسل میں روسی قرارداد پر رائے دہی سے قبل اقوامِ متحدہ کے سیکٹری جنرل انتونیو گتیریز نے گفتگو کرتے ہوئے ملکوں پر زور دیا کہ وہ ایسی کارروائیوں سے گریز کریں جو  شام میں صورتحال کو مزید کشیدہ کردے اور لوگوں کی تکالیف بڑھادے۔

اُنہوں نے مزید گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے یہ میری ذمہ داری ہے کہ رکن ممالک کو یاددہانی کرواؤں کہ خاص طور پر جب امن اور سلامتی کے معاملات سے نبٹا جارہا ہو تو فرض ہے کہ تضاد کے بغیر اقوامِ متحدہ کے دستور اور عام طور پر بین الاقوامی قانون کیمطابق عمل کیا جائے‘‘۔

بظاہر عالمی ادارے کے سربراہ امریکہ، برطانیہ اور فرانس سمیت عالمی طاقتوں کو خبردار کررہے تھے کہ وہ بین الاقوامی معاملات میں اقوامِ متحدہ کے دستور اور بین الاقوامی قانون کی پاسداری کریں۔ وہ یہ بھی باور کرواچکے ہیں کہ سلامتی کونسل کی اولیت کا احترام کیا جائے۔

یاد رہے کہ امریکی زیرِ قیادت شام پر حالیہ حملوں کی اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے اجازت نہیں لی گئی تھی بلکہ امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے شام کے قصبے دوما میں مبینہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر کسی بھی آزادانہ اور بین الاقوامی تفتیش سے پہلے ہی یکطرفہ طور پر فوجی کارروائی کردی۔

شام پر اِن حملوں کی قانونی حیثیت پر سوالات اُٹھائے جارہے ہیں۔ برطانیہ میں حزبِ اختلاف کے قائد جیرمی کوربن کا کہنا ہے کہ شام پر حملہ قانونی لحاظ سے مُشتبہ ہے۔ برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کو لکھے گئے خط میں کوربن نے تحریر کیا تھا کہ ’’اقوامِ متحدہ یا کیمیائی ہتھیاروں کی روک تھام کے ادارے او پی سی ڈبلیو نے ابھی تک شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی تصدیق نہیں کی، اس لیے یہ بات عیاں ہے کہ تمام سفارتی اور غیر فوجی ذرائع استعمال نہیں کیے گئے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ او پی سی ڈبلیو کے معائنہ کاروں کو اپنا کام کرنے دیا جائے جو آج دوما پہنچنے والے ہیں‘‘۔

دوسری جانب، روس کے خبررساں ادارے تاس کیمطابق متحارب فریقین کی مفاہمت کے روسی مرکز نے 9 اپریل کو شام کے قصبے دوما میں تحقیقات کی تھیں لیکن کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا کوئی کھوج نہیں ملا تھا۔ بعد ازاں 10 اپریل کو شام کیجانب سے کیمیائی ہتھیاروں کی روکتھام کی تنظیم، او پی سی ڈبلیو کو مشرقی غوطہ کے دورے کی دعوت دی گئی جس کےبعد اُسی روز مذکورہ تنظیم کے ڈائریکٹر جنرل احمد اُزمچو نے کہا کہ تنظیم نے ماہرین کو شام بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ خبررساں ادارے تاس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ او پی سی ڈبلیوکے ماہرین مبینہ کیمیائی حملے کی تفتیش ہفتے کے روز شروع کرنے والے تھے۔

شام پر امریکہ، برطانیہ اور فرانس کے حالیہ مُشترکہ حملوں کے قانونی جواز پر اُٹھنے والے سوالات نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ یہ رائے تقویت پکڑتی جارہی ہے کہ امریکہ، برطانیہ اور فرانس نہ صرف اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی اولیت اور اہمیت کو نظرانداز کررہے ہیں بلکہ اپنے من مانے فوجی اقدامات سے عالمی امن کو پہلے سے زیادہ سنگین خطرے سے دوچار کررہے ہیں۔