(غزہ۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 29 شعبان 1439ھ) فلسطین کے علاقے غزہ میں مبینہ اسرائیلی سرحد کے نزدیک اسرائیلی فوج کی جان لیوا کارروائیوں اور ایک ہی دن میں 55 فلسطینی مظاہرین کی ہلاکت پر بین الاقوامی برادری نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے جبکہ لندن، برلن اور استنبول سمیت کئی شہروں میں اسرائیل کیخلاف مظاہرے ہوئے ہیں۔
امریکہ نے اسرائیل میں اپنے سفارتخانے کو 14 مئی پیر کے روز تل ابیب سے مقبوضہ القدس منتقل کیا ہے جس کے افتتاح کے موقع پر غزہ میں اسرائیلی فوج نے فلسطینی مظاہرین پر بے دریغ فائرنگ کرکے 55 فلسطینیوں کو ہلاک اور 2700 سے زائد کو زخمی کردیا۔ اس واقعے سے تقسیم ہندن سے قبل ہندوستان کے شہر امرتسر میں 13 اپریل 1919ء کو پیش آنے والے جلیانوالہ باغ کے اُس واقعے کی یاد تازہ ہوگئی ہے جب قابض برطانوی فوج نے نہتّے احتجاجی مظاہرین پر فائرنگ کرکے 1500 سے زائد لوگوں کو ہلاک اور لگ بھگ 1100 کو زخمی کردیا تھا۔ نوآبادیاتی برطانوی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ 379 افراد ہلاک ہوئے جبکہ مقامی عینی شاہدین اور ڈاکٹر رپورٹ کیمطابق 1500 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
یہودیوں کو یورپ بھر سے لاکر فلسطین میں بسانے اور 1948ء میں ریاست اسرائیل تخلیق کرنے والے برطانیہ کی وزیراعظم تھریسا مے نے بھی پیر 14 مئی کو غزہ میں 55 فلسطینیوں کی ہلاکت پر تشویش کا اظہار کیا ہے لیکن اُنہوں نے اسرائیلی حکومت یا اسرائیلی فوج کی پُرتشدّد اور ہلاکت خیز کارروائیوں کی مذمّت نہیں کی۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے کہا ہے کہ القدس، جسے یہودی یروشلم کہتے ہیں، اُسے اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے امریکہ مشرقِ وسطیٰ میں اپنی ثالث کی حیثیت کھوبیٹھا ہے۔ ترک صدر نے غزہ میں فلسطینیوں کی ہلاکت کو ’’ایک دہشتگرد ریاست‘‘ کیجانب سےنسل کشی قراردیا ہے۔
دریں اثناء، کویت نے غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کی مذمّت کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کی درخواست دی ہے۔
یورپی یونین کی پالیسی سربراہ فیڈریکا موغیرینی نے گزشتہ روز ایک بیان میں کہا کہ ’’بچّوں سمیت درجنوں فلسطینی آج اسرائیل فائرنگ سے ہلاک ہوئے ہیں‘‘۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ ’’اسرائیل کو چاہیئے کہ وہ پرامن احتجاج کے حق اور طاقت کے استعمال میں تناسب کے اُصول کا لازمی احترام کرے‘‘۔ لیکن موغیرینی نے اسرائیلیوں کارروائیوں کی واضح مذمّت سے گریز کیا ہے۔
جرمنی کی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں غزہ میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں فلسطینیوں کی ہلاکت پر تشویش کا اظہار کیا ہے لیکن اُس نے بھی اسرائیلی حکومت یا اسرائیلی فوج کی مذمّت نہیں کی۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’اسرائیل اپنے دفاع اور پرتشدد مداخلت کیخلاف رکاوٹ یقینی بنانے کا حق رکھتا ہے لیکن یہ کہ تناسب کے اُصول کا اطلاق کرے‘‘۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ قابلِ غور بات یہ ہے کہ یورپی ممالک اور یورپی برادری فلسطینیوں کی ہلاکت اور اسرائیل کیجانب سے پرامن مظاہرین کیخلاف طاقت کے بیجا اور حد سے زیادہ استعمال پر اظہارِ تشویش تو کررہے ہیں لیکن اسرائیل یا اسرائیلی فوج کی مذمت نہیں کررہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اسی طرزِعمل کی وجہ سے اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہُو کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے کہ وہ فلسطینیوں کیخلاف جتنی چاہے طاقت استعمال کریں۔
دریں اثناء، برطانوی دارالحکومت لندن، جرمنی کے شہر برلن اور ترکی کے شہر استنبول سمیت کئی ممالک میں امریکہ اور اسرائیل کی مذمّت میں مظاہرے کیے گئے ہیں۔ مظاہرین نے امریکہ کا سفارتخانہ تل ابیب سے القدس منتقل کرنے، غزہ میں پرامن مظاہرین پر اسرائیلی فوج کی بے دریغ فائرنگ اور پیر کے روز 55 فلسطینیوں کو ہلاک کردینے کی مذمّت کی ہے۔ احتجاجی مظاہرین اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اقوامِ متحدہ کے کردار پر بھی سوالات اُٹھائے ہیں۔
ہم آپ کا آن لائن تجربہ بہتر بنانے کیلئے کُوکیز استعمال کرتے ہیں۔ اُردونیٹ پوڈکاسٹ ڈاٹ کام کی ویب سائٹ کا استعمال جاری رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ہماری کُوکیز و رازداری طریقِ عمل پالیسی اور شرائط وضوابط سے متفق ہیں۔ مزید آگاہی کیلئے رازداری طریقِ عمل دیکھیے۔منظوررازداری طریق عمل