غزہ میں 118 فلسطینیوں کے قتل کی تحقیقات کی حمایت پر اسرائیل یورپ سے برہم

(برسلز۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 06 رمضان 1439ھ)  اسرائیل فلسطین کے علاقے غزہ میں مبینہ اسرائیلی سرحد کے نزدیک رواں ماہ  118 فلسطینیوں کو قتل کرنے کے الزامات کی اقوامِ متحدہ کے ذریعے آزادانہ تحقیقات کے مطالبے کی حمایت کرنے پر یوپی ملکوں سے برہم ہوگیا ہے اور ایک مرتبہ پھر کوشش کررہا ہے کہ اُس کی فوج کے ہاتھوں ہونے والے فلسطینیوں کے قتل کی کوئی تحقیقات نہ ہوں۔

یاد رہے کہ 14 مئی کو مقبوضہ القدس میں امریکی سفارتخانے کے افتتاح کے موقع پر غزہ میں اسرائیل کی مبینہ سرحد کے نزدیک اسرائیلی فائرنگ سے 60 سے زائد فلسطینی جاں بحق جبکہ 2700 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔ بعد ازاں اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں فلسطینیوں کی ہلاکت پر توجہ مبذول کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ واقعے کی تحقیقات کیلئے کمیشن بنایا جائے گا کیونکہ مختلف ذرائع سے یہ تصدیق ہوتی ہے کہ فلسطینی مظاہرین غیرمسلح تھے اور وہ صرف احتجاج کررہے تھے۔

اطلاعات کیمطابق اسرائیلی وزارت خارجہ نے تل ابیب میں متعین یورپی ملکوں اسپین، سلوینیا اور بیلجیئم کے سفراء کو طلب کیا اور غزہ میں مظاہرین کے قتل عام کی تحقیقات کے لیے کمیشن کے قیام کی حمایت پر ان سے سخت احتجاج کیا گیا ہے۔ اسرائیلی وزارتِ خارجہ نے بھی تصدیق کی ہے کہ تین ملکوں کے سفراء کو طلب کرکے اُن سے احتجاج کیا گیا ہے۔

اسرائیلی وزارت خارجہ کے مطابق مغربی یورپ کے اُمور کے معاون نے بیلجیئم، سلوینیا اور اسپین کے سفیروں کو طلب کر کے ان سے سخت احتجاج کیا ہے۔

گزشتہ ہفتے، اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق زید بن رعد الحسین نے غزہ میں اسرائیلی فوج کیجانب سے طاقت کے بیجا استعمال پر سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیلی فوج نے ممنوعہ ہتھیاروں کا استعمال کرکے فلسطینیوں کو ہلاک کیا ہے۔

جنیوا میں اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ اسرائیل منظم انداز میں فلسطینیوں کے بنیادی انسانی حقوق کو پامال کررہا ہے جبکہ غزہ کی پٹی کے 19 لاکھ فلسطینی زہریلی گیس کا سامنا کررہے ہیں۔

دوسری جانب، فلسطین میں انسانی حقوق کی صورتحال پر رپورٹ مرتب کرنے والے اقوامِ متحدہ کے نمائندے مائیکل لنک نے کہا تھا کہ اسرائیل کیجانب سے فلسطینی احتجاجی مظاہرین کیخلاف طاقت کا استعمال روم سمجھوتے کے تحت’’جنگی جرائم‘‘ کے برابر ہے۔ اس سمجھوتے کو ’’اسٹیچیوٹ آف روم‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

مائیکل لنک نے مشرقی القدس سمیت مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں گزشتہ ہفتے وڈیو ریکارڈنگ کے ذریعے گفتگو کرتے ہوئے یہ بیان دیا۔ اقوامِ متحدہ کے خصوصی نمائندے کا کہنا تھا کہ ’’میں لازمی یہ نشاندہی کروں گا کہ ارادی طور پر قتل کرنا اور کسی بھی عام شہری کے جسم یا اُس کی صحت کو بڑا نقصان پہنچانا یا زخمی کرنا  جنیوا کنونشنوں کی سنگین خلاف ورزی اور روم سمجھوتے کے تحت جنگی جُرم ہے‘‘۔

یاد رہے کہ 14 مئی کو مقبوضہ القدس میں امریکی سفارتخانے کے متنازع افتتاح کے دن غزہ میں مقبوضہ اسرائیلی سرحد کے نزدیک احتجاجی مظاہرہ کرنے والے نہتّے فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج نے اندھادھند فائرنگ کی جس سے صرف ایک ہی دن میں 61 فلسطینی جاں بحق ہوگئے تھے۔ اسرائیل 14 مئی کو اپنا یومِ تاسیس مناتا ہے جبکہ فلسطینی اس سے اگلے دن 15 مئی کو ’’نکبہ‘‘ یعنی یومِ تباہی کے طور پر مناتے ہیں۔ یہ وہ دن ہے جب 1948ء میں برطانیہ نے پورے یورپ سے یہودیوں کو فلسطین لاکر ریاست اسرائیل تخلیق کی تھی اور لاکھوں فلسطینیوں کو اُن کے گھروں، زرعی زمینوں، گاؤں، مویشیوں، باغات اور دیگر جائیدادوں پر قبضہ کرکے اُنہیں اُن ہی کے گھروں اور علاقے سے بیدخل کردیا تھا۔ اِ س دوران یورپ سے لائے گئے یہودیوں کو فلسطینیوں کے گھروں، علاقوں اور گاؤں میں بسادیا گیا اور یہ ناجائز قبضہ آج تک جاری ہے۔