(اسلام آباد۔ اُردو نیٹ پوڈکاسٹ 19 اگست 2019) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ انہوں نے پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کے ساتھ بھارتی زیر تسلط اکشمیر کے مسئلے پر خطے میں پیدا ہونے والی حالیہ کشیدگی کم کرنے کیلئے بات چیت کی ہے۔
اپنی ایک ٹوئیٹ میں صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اپنے دو اچھے دوستوں، بھارتی وزیر اعظم مودی اور پاکستان کے وزیر اعظم خان سے تجارت، تزویراتی شراکت داریوں اور دونوں ممالک کے لیے سب سے اہم یہ کہ کشمیر کے مسئلے پر تناؤ کم کرنے کے لیے کام کرنے پر بات کی ہے۔
یاد رہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کیجانب سے 5 اگست کو آئین میں جموں وکشمیر کو دی گئی خصوصی حیثیت کی شقوں کو ختم کرنے کے اعلان اور پورے جموں وکشمیر میں غیرمعینہ کرفیو نافذ کر کے بعد سے پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات انتہائی کشیدگی کی سطح پر پہنچ گئے ہیں جس نے خطّے میں ممکنہ ایٹمی جنگ کے خطرات کو اُجاگر کردیا ہے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اسلام ٓباد میں ایک اخباری کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وزیراعظم عمران خان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ایک مرتبہ پھر رابطہ ہوا، جس میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر تبادلہ خیال ہوا اور ہمیں امید ہے کہ امریکا اس موجودہ کشیدگی اور تنازع کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔
پاکستانی وزیر نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کی ڈونلڈ ٹرمپ سے 16 اگست کو بھی گفتگو ہوئی تھی، جس میں وزیراعظم نے اُنہیں پاکستان کے مؤقف سے آگاہ کیا تھا، اس دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ کشمیر کے معاملے پر نریندر مودی سے بات کریں گے اور آج ٹرمپ اور مودی کی خطے میں کشیدگی کم کرنے پر گفتگو ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 10 بجے وزیراعظم عمران خان اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ میں بھی ٹیلی فونک رابطہ ہوا، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خطے میں کشیدگی پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ اسے فوری طور پر ختم ہونا چاہیے اور خطے میں امن کو ہرصورت برقرار رہنا چاہیے۔
شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ وزیراعظم عمران خان نے آج ڈونلڈ ٹرمپ کو پاکستان کا مؤقف وضاحت اور تفصیل کے ساتھ بیان کیا جبکہ بھارتی حکومت کے اقدامات کی وجہ سے بگڑنے والی خطے کی صورتحال کے بارے میں بھی آگاہ کیا۔
اُنہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے امریکی صدر کو بتایا کہ 5 اگست کے بھارت کے اقدامات نے خطے کو ایک سنگین صورتحال سے دوچار کردیا ہے، مقبوضہ کشمیر سے متعلق بھارتی اقدامات یکطرفہ تھے، ان اقدامات کے پیچھے عالمی سطح پر تسلیم شدہ متنازع علاقے کی حیثیت کو تبدیل کرنا مقصود تھا جبکہ بھارت کا ارادہ ہے کہ مسلم اکثریتی علاقے کو اقلیتی علاقے میں تبدیل کردیا جائے۔
پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے امریکی صدر کو مزید بتایا کہ پاکستان کی رائے میں بھارتی حکومت کے اقدامات اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں، ان اقدامات کے بعد جس نئی صورتحال نے جنم لیا اس سے انسانی حقوق کا ایک بحران جنم لے سکتا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے موبوضہ کشمیر کی تازہ ترین صورتحال کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں اب بھی مکمل بلیک آؤٹ ہے، وہاں کی اصل صورتحال اور حقائق کیا ہیں، یہ دنیا کی نظروں سے اوجھل ہیں۔
اُنہوں نے نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے ڈونلڈ ٹرمپ سے کہا کہ آج کرفیو کو 15 روز ہوگئے، اس کا اندازہ اور لوگوں کی کیفیت کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ ہزاروں افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے جبکہ بہت سے لوگوں کو گرفتاری کے بعد کشمیر سے باہر منتقل کردیا گیا۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ عمران خان نے ڈونلڈ ٹرمپ سے یہ بھی گزارش کی کہ ان کی رائے میں صورتحال اتنی تشویشناک ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مبصرین کو فی الفور مقبوضہ کشمیر بھیجا جائے تاکہ صحیح صورتحال دنیا کے سامنے آسکے کیونکہ حقائق نہیں بتائے جارہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کشمیر کی صورتحال میں دلچسپی لینے اور رابطہ کرنے پرامریکی صدر کا شکریہ ادا کیا اور یہ کہ وزیراعظم سمجھتے ہیں کہ یہ تعمیری رابطے ہیں، لہٰذا ہمیں توقع ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکا اس تنازع کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
اُدھر دہلی میں بھارتی وزیر اعظم دفتر کی جانب سے جاری کی جانے والی ٹوئیٹس میں کہا گیا ہے وزیرِ اعظم مودی کی صدر ٹرمپ سے فون پر ہونے والی گفتگو میں دو طرفہ اُمور اور خطے کی صورتحال پر بات چیت ہوئی ہے۔
دوسری جانب وہائٹ ہاؤس کے ترجمان ہوگن گیڈلے کا صدر ٹرمپ اور وزیراعظم مودی کے درمیان ہونے والی گفتگو کے بارے میں کہنا تھا کہ امریکی صدر نے دونوں رہنماؤں کو بھارت اور پاکستان کے مابین تناؤ کو کم کرنے اور خطے میں امن برقرار رکھنے کی اہمیت سے آگاہ کیا ہے۔
تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ امریکی صدر نے بھارتی وزیراعظم سے گفتگو میں مقبوضہ وادی میں 15 روز سے جاری کرفیو اور کشمیریوں رہنماؤں اور کشمیری نوجوانوں کی اُن لاتعداد گرفتاریوں سے متعلق کوئی بات کی یا نہیں جو بھارتی فورسز نے گزشتہ دو ہفتوں کے دوران کی ہیں۔