نوازشریف وطن واپسی اور انتظامیہ اُنہیں ہوائی اڈّے پر گرفتارکرنے کیلئے تیار

(اسلام آباد-اُردونیٹ پوڈکاسٹ 28 شوال 1439ھ)  پاکستان کے سابق وزیراعظم اور سابق حکمراں جماعت مسلم لیگ ن کے تاحیات قائدمیاں نواز شریف اور اُن کی صاحبزادی مریم پاکستان واپسی کیلئے تیار ہوگئے ہیں جبکہ لاہورمیں انتظامیہ اُنہیں ہوائی اڈّے ہی پر گرفتار کرنے کیلئے تیار ہوگئی ہے۔ نواز شریف نے گزشتہ روز لندن میں ایک اخباری کانفرنس منعقد کرکے اپنی اور اپنی بیٹی کی وطن واپسی کا اعلان کیا تھا۔مریم نواز ٹوئیٹر پر اعلان کرچکی ہیں کہ وہ اور اُن کے والد نواز شریف جمعے کی شام ایک ساتھ لاہور کے علامہ اقبال ہوائی اڈّے پر اُتریں گے ۔

یاد رہے کہ پاکستان میں احتساب عدالت نے سابق وزیرِاعظم میاں نوازشریف کو لندن میں  ایون فیلڈ فلیٹس کی ملکیت کے سلسلے میں قائم کیے گئےایک مقدمے میں 10 سال قید اور اُن کی صاحبزادی مریم نواز کو 7 سال اور داماد (ر) کیپٹن صفدر کو ایک سال قید کی سزا سُنائی ہے۔ یہ مقدمہ قومی محکمہٴ احتساب کیجانب سے دائر کیا گیا تھا۔

نواز شریف پر سزائے قید کے علاوہ 80 لاکھ پاؤنڈ  (ایک ارب 10 کروڑ روپے سے زائد) اور مریم نواز پر 20 لاکھ پاؤنڈ (30 کروڑ روپے سے زائد) کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے جبکہ ایون فیلڈ کی جائیداد قرق کرنے کا حکم بھی دیا گیاہے۔ قانونی مبصرین کیمطابق نواز شریف اور اُن کی صاحبزادی  مریم 10 روز کے اندر اندر اس فیصلے کیخلاف ہائی کورٹ میں اپیل کرسکتے ہیں اور اس عرصے میں وطن واپس نہ آنے کی صورت میں اپیل دائر کرنے کا اُن کا حق ختم ہوسکتا ہے۔

تاہم نواز شریف کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان میں جمہوریت اور ووٹ کے تقدس کیلئے واپس آرہے ہیں اور جیل جانے کیلئے تیار ہیں۔ مسلم لیگ ن کے سربراہ اور نواز شریف کے بھائی شہباز شریف نے اعلان کیا ہے کہ وہ اور ن  لیگی کارکن لاہور کے ہوائی اڈّے پر سابق وزیراعظم نواز شریف کا استقبال کریں گےجبکہ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعظم کو  ہوائی اڈّے پر ہی گرفتار کرلیا جائیگا۔

خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ نواز شریف اور اُن کی بیٹی کی آمد پر لاہور کے ہوائی اڈّے اور اُس کی طرف جانے والوں راستوں پر پولیس اور ن لیگ کے کارکنان کےمابین کسی  تصادم کی صورت میں صورتحال بگڑ بھی سکتی ہے۔ 25 جولائی کو عام انتخابات سے قبل منگل کی شب پشاور میں عوامی نیشنل پارٹی کے اُمیدوار ہارون بلور سمیت 20 افراد ایک دہشت گرد حملے میں جاں بحق ہوچکے ہیں۔ ان حالات میں تجزیہ کار یہ امکان بھی ظاہر کررہے ہیں کہ صوبہ پنجاب میں ہنگامہ آرائی یا بڑے احتجاجی مظاہروں کی صورت میں انتخابات کا انعقاد مشکل ہوسکتا ہے جس سے صورتحال مزید خراب ہوجائے گی۔

دوسری جانب، بعض دیگر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی پاکستان آمد مسلم لیگ ن کی عوامی طاقت کا ایک امتحان بھی ہے اور اگر لیگی قیادت بڑی تعداد میں کارکنوں کو ہوائی اڈّے پر نواز شریف کے استقبال کیلئے لانے میں ناکام ہوگئی تو انتخابات سے قبل اُس کی ساکھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔