ٹرمپ کی دھمکی کے بعد شام میں امریکہ اور روس کے ٹکراؤ کا خطرہ

(واشنگٹن۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 26 رجب 1439ھ)  امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس دھمکی کے بعد شام میں امریکہ اور روس کے براہِ راست ٹکراؤ کا خطرہ پیدا ہوگیا کہ ’’روس تیار رہو بہترین اور نئے امریکی میزائل آرہے ہیں‘‘۔  اُنہوں نے ٹوئیٹر پر اپنے پیغام میں روس پر نکتہ چینی کی کہ وہ شامی صدر بشارالاسد کی حمایت کررہا ہے۔

صدر ٹرمپ کے اِس اچانک بیان پر روس نے اپنے ردعمل میں کہا کہ وہ ’’شام کی جانب آنے والے تمام میزائلوں کو مارگرائے گا اور اُن کے داغنے کی جگہوں کو بھی تباہ کردے گا‘‘۔ قبل ازیں اقوامِ متحدہ میں روسی سفیر ویسیلی نیبینزیا نے سلامتی کونسل کے ایک اجلاس میں امریکہ کو خبردار کیا تھا کہ وہ شام میں کسی بھی فوجی کارروائی سے باز رہے۔ اُنہوں ںے واشنگٹن کو یہ انتباہ بھی دیا کہ اگر کوئی غیرقانونی فوجی کارروائی کی تو اس کا ذمہ دار امریکہ ہوگا۔

30 مارچ کو اسرائیل کیجانب سے غزہ کے نزدیک سرحد پر فلسطینی مظاہرین پر اندھا دھند فائرنگ اور 30 سے زائد فلسطینیوں کی ہلاکت اور 1400 فلسطینی مظاہرین کے زخمی ہونے کے بعد تل ابیب پر بین الاقوامی دباؤ تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ اِسی دوران مغربی ذرائع ابلاغ نے شام کے علاقے دوما میں کیمیائی حملے کی خبریں جاری کیں تاہم اِس سلسلے میں ابھی تک کوئی بین الاقوامی معائنہ یا تصدیق سامنے نہیں آئی کہ آیا مبینہ حملہ کیمیائی ہتھیاروں کا کوئی حملہ تھا۔ شام اور روس نے ایسے کسی حملے کو سختی سے مُسترد کیا ہے لیکن امریکہ، برطانیہ اور فرانس اِس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ شامی صدر بشارالاسد کی فوج نے کیمیائی ہتھیار استعمال کیے ہیں۔

یاد رہے کہ امریکہ سلامتی کونسل میں شام کیخلاف قرارداد منظور کروانے میں ناکام ہوگیا تھا کیونکہ روس نے اِسے ویٹو کردیا تھا۔ اقوامِ متحدہ میں روس اور امریکہ کے سفیروں کے مابین سخت الفاظ کا تبادلہ ہوا تھا۔

دریں اثناء، شام میں مبینہ کیمیائی حملے کے جواب میں امریکی صدر ٹرمپ کیجانب سے میزائل حملے کی دھمکی اور روس کے ردعمل کے بعد اُس وقت صورتحال غیریقینی کا شکار ہوگئی جب امریکی ذرائع ابلاغ نے خبریں دیں کہ ٹرمپ نے شام پر میزائل حملوں کی ٹوئیٹ سے قبل امریکی اتحادیوں سے اِس اقدام پر حتمی بات چیت نہیں کی۔ بعض اطلاعات کیمطابق کئی امریکی اتحادی شام پر میزائل حملے سے متعلق صدر ٹرمپ کے ٹوئیٹی بیان پر حیران ہوئے ہیں۔

 اُدھر وہائٹ ہاؤس کی ترجمان سارہ سینڈرز نے بدھ کے روز نامہ نگاروں کو بتایا ہے کہ شام پر فوجی کارروائی کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ اِس بیان سے تجزیہ کاروں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ شام پر میزائل حملے کی کارروائی کے بیان سے قبل صدر ٹرمپ نے اپنی کابینہ اور اتحادیوں کو مکمل اعتماد میں نہیں لیا تھا۔ سارہ سینڈرز کا کہنا تھا کہ ’’امریکی صدر کے پاس کئی راستے موجود ہیں اور تاحال مخصوص کارروائی کے بارے میں کوئی منصوبہ ترتیب نہیں دیا گیا‘‘۔

غزہ میں 30 سے زائد فلسطینی مظاہرین کی ہلاکت اور بعد ازاں شام میں مبینہ کیمیائی حملے کی اطلاعات پر امریکہ اور روس کے مابین شدید اختلاف اور دھمکیوں کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں صورتحال ایک مرتبہ پھر غیرمعمولی تناؤ کا شکار ہوگئی ہے۔