سفارتکاری حکومتِ پاکستان کا ایک ایسا حسّاس شعبہ ہے جو نہ صرف دیگر ممالک سے پاکستان کے تعلقات، اقوامِ متحدہ سمیت عالمی اور علاقائی تنظیموں سے رابطوں اور پاکستان کے موقف کو اُجاگر کرنے کیلئے کلیدی حیثیت رکھتا ہے بلکہ حال اور مستقبل کیلئے ملک کی سلامتی، دفاعی اور اقتصادی پالیسی کے خدوخال طے کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی حکمتِ عملی کو عملی جامہ پہنانے اور دنیا کو اِس حکمتِ سے متعلق قائل کرنے کی راہ ہموار کرنے کیلئے اُتنی ہی اہمیت کا حامل ہے جتنی کہ ریڑھ کی ہڈّی کسی جسم کے توازن اور صحت کیلئے رکھتی ہے۔ لیکن انتہائی افسوسناک اَمر یہ ہے کہ سابقہ حکومت میں گزشتہ پانچ سال کے دوران سفارتکاری کی اِس کلیدی حیثیت کی اس طرح نفی کی گئی کہ چار سال تک تو ملک کا کوئی وزیرِ خارجہ ہی نہ تھا۔ سابق وزیرِاعظم نواز شریف نے حزبِ اختلاف کی کلیدی جماعتوں اور دیگر حلقوں کیجانب سے بار بار مطالبات کے باوجود بھی چار سال تک ملک کا وزیرِ خارجہ مقرر نہ کیا اور اپنے مُشیرِ خارجہ کے انتہائی کمزور بلکہ لاغر منصب کے ذریعے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو انجانی سمت کھینچا جاتا رہا۔
سابق وزیرِاعظم نواز شریف اقتدار سے علیحدہ ہونے اور اپنی حکومت کے خاتمے تک بھی یہ وضاحت نہ کرسکے کہ آخر چار سال تک اُنہوں نے کسی کو ملک کا وزیرِ خارجہ کیوں مقرر نہیں کیا۔ مُسلم لیگ ن کے اندرونی ذرائع سمیت کئی تجزیہ کاروں نے نشاندہی کی تھی کہ نوازشریف وزیرِ خارجہ کے منصب کیلئے کسی پر اعتبار نہیں کرتے اور خارجہ اُمور اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے تھے۔ گویا پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کہلانے والی پاکستان مُسلم لیگ ن کے پاس ایک بھی ایسا اہل شخص موجود نہ تھا کہ جسے وزیرِ خارجہ کا منصب سونپا جاسکتا۔ سابق وزیرِاعظم نواز شریف نے کیوں چار سال تک کوئی وزیرخارجہ مقرر نہیں کیا؟ اِس کا جواب نہ خود اُنہوں نے دیا اور نہ ہی اُن کی جماعت مُسلم لیگ ن نے کوئی وضاحت پیش کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ شاید جب طاقت کا ارتکاز کسی ایک جگہ پر ہوجائے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ دراصل یہ آمریت ہی ہے ورنہ جمہوری طورطریقوں میں تو پارلیمان اور عوام کے سامنے وضاحت پیش کرنا ناگزیر ہوتا ہے۔ عدالت کیجانب سے نااہل قراردیے جانے کے بعد نوازشریف 28 جولائی 2017ء کو وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ دے کر الگ ہوئے تو اُس کے بعد یعنی مُسلم لیگ ن کے اقتدار میں آنے کے چار سال کے بعد 4 اگست 2017ء کوبالآخر سابق وزیرِاعظم کے بااعتماد ساتھی خواجہ محمد آصف کو ملک کا وزیرِ خارجہ مقررکیا گیا لیکن اُس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی۔
یہ چار سال کا خلاء پاکستان اور پاکستان کے خارجہ تعلقات و پالیسی کیلئے ناقابلِ تلافی نقصان تھا۔ راقم کے خیال میں اِس سے ملک کو درج ذیل نقصانات ہوئے۔
اقوامِ متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم اوآئی سی سمیت عالمی اور علاقائی تنظیموں اور فورمز میں دہشتگردی، کشمیر اور افغانستان پر پاکستان کے موقف کو شدید ٹھیس پہنچی۔
اسلامی تعاون تنظیم اوآئی سی اور عرب لیگ سے پاکستان کے دیرینہ تعلقات شدید متاثر ہوئے اور اِن تنظیموں میں پاکستان کی مضبوط ساکھ کو نقصان پہنچا۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر سے بھی پاکستان کے تعلقات کو شدید نقصان پہنچا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اِن ممالک نے کئی فورمز پر پاکستان کی حمایت کرنے سے گریز کیا جس کا فائدہ بھارت کو پہنچا۔
ایک ایسے وقت جب بھارت پاکستان پر دہشتگردی کے الزامات کو دنیا کے ہر کلیدی دارالحکومت میں زور شور کیساتھ لیکر گیا اور اُس نے دنیا کو اپنا ہمنوا بنایا، پاکستان کے پاس اپنا موقف بیان کرنے کیلئے کوئی وزیرِ خارجہ نہ تھا جو مشرقِ وسطیٰ، امریکہ، یورپ اور ایشیاء-بحرالکاہل خطّے کے ممالک کے پاس جاتا اور وہاں پاکستان کے موقف کی وضاحت کرکے بھارت کی چالوں، پروپیگنڈے اور حکمتِ عملی کو ناکام بناتا۔ اِس ناکامی کا نتیجہ یہ نکلا کہ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں 50 ہزار کے قریب جانوں کی قربانی، اربوں ڈالر کے معاشی نقصان اور دہشتگردی کے خاتمے کیلئے افواجِ پاکستان کی مسلسل جدوجہد کے باوجود دنیا بھر میں پاکستان کو ہی موردِ الزام ٹھہرایا جاتا رہا۔
پاکستان کیخلاف بھارت کے منفی پروپیگنڈے اور الزامات سے نبٹنے کے بجائے صرف تردیدی بیانات دینے پر اکتفا کیا گیا اور عملی طور پر نہ تو پاکستان کے سفارتکاروں کا متحرک کیا گیا اور نہ ہی بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں پاکستان مخالف پروپیگنڈے کے تدارک کیلئے موثراقدامات کیے گئے۔
واضح اور موثر خارجہ پالیسی کے فقدان کی وجہ سے دنیا بھر میں پاکستان کے سفارتخانے اور قونصل خانے پاکستان مخالف پروپیگنڈے کیخلاف فوری اور نتیجہ خیز ردعمل کرنے سے قاصر رہے جس کے نتیجے میں غیرممالک سے ہر سطح پر پاکستان دباؤ کا شکار ہُوا۔
امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت دنیا بھر میں طویل عرصے سے مقیم پاکستانیوں کو پاکستان کیخلاف بھارت، افغانستان اور امریکہ کے منفی پروپیگنڈے سے نبٹنے کیلئے نہ تو متحد کیا جاسکا اور نہ ہی استعمال کیا جاسکا۔ دوسری جانب، بھارت نے بیرونِ ملک مقیم اپنے شہریوں کو سفارتکاری میں بھرپور طریقے سے استعمال کیا اور مطلوبہ نتائج بھی حاصل کیے۔ اس کی مثال بھارت کے امریکہ، اسرائیل، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر ملکوں کے ساتھ غیرمعمولی گرمجوش تعلقات کی صورت میں سامنے آئے اور پاکستان کے مفادات کو براہِ راست نقصان پہنچا۔
بھارت میں نریندر مودی کی حکومت آنے کے بعد مقبوضہ جمّوں وکشمیر میں بھارتی فورسز کے مظالم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شدید ترہوتے گئے جس کے انسداد کیلئے طویل مدّتی حکمتِ عملی کیساتھ بھرپور انداز میں ایک عالمی مہم چلانے کی ضرورت تھی لیکن اِس موقع کو قطعی ضائع کردیا گیا۔ دنیا بھر میں قائم انسانی حقوق کے اداروں، اقوامِ متحدہ، بیرونِ ملک مقیم کشمیریوں اور دیگر پاکستانیوں کیساتھ ملکر عالمی ذرائع ابلاغ اور دنیا بھر کے دارالحکومتوں کو یہ باور کروانے کی ضرورت تھی کہ بھارت معاشی ترقّی کی آڑ میں غیرملکی سرمایہ کاری کا ترغیبی جھانسہ دیکر مقبوضہ جمّوں وکشمیر میں نسل کشی کررہا ہے۔ لیکن نوازشریف کی حکومت نے بھارتی عزائم اور مظالم بے نقاب کرنے کی کوئی عملی کوشش نہیں کی یہانتک کہ نریندرمودی کی بھارتی حکومت پاکستان کیساتھ بات چیت تک سے مسلسل انکار کرتی رہی۔
حکومتیں عام طور پر اپنی خارجہ پالیسیاں اور حکمتِ عملی وضع کرنے کیلئے اپنے سابق وزرائے خارجہ اور سابق اعلیٰ ترین سفارتکاروں کی خدمات حاصل کرتی ہیں لیکن نواز شریف کی انتظامیہ میں سارے فیصلے وزیرِاعظم کی ذات سے منسلک ہونے کی وجہ سے دراصل خارجہ پالیسی کا بظاہر وجود ہی نہیں تھا۔ کسی ملک میں وزیراطلاعات یا سیاسی جماعت کا ترجمان خارجہ پالیسیوں پر بیان نہیں دیتا لیکن مُسلم لیگ ن کی حکومت میں ایسا ہوتارہا جس سے نہ صرف سیاسی جماعتیں بلکہ پاکستان کے سابق وزرائے خارجہ بھی سخت نالاں نظرآئے۔
اِس گھمبیر صورتحال میں ضرورت اِس بات کی ہے کہ نئی آنے والی حکومت نہ صرف ایک باقاعدہ وزیرخارجہ مقرر کرے بلکہ اُسے مخصوص اہداف کیساتھ اتنا متحرک کردے کہ وہ دنیا کے اہم ترین دارالحکومتوں کے ساتھ ساتھ براعظم افریقہ کے ساتھ بھی پاکستان کے تعلقات کو فعال بنائے۔ پاکستان کا اگلا وزیرِ خارجہ کون ہوگا؟ یہ کہنا ابھی قبل ازوقت ہے لیکن فیصلہ جلد ازجلد ہوجانا چاہیئے۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ صرف انگریزی روانی اور مختلف طرز سے بول لینا ہی وزیرِ خارجہ کی اہلیت نہیں ہونی چاہیئے۔ ہم نے گزشتہ 15 سالوں کے دوران خورشید محمود قصوری، شاہ محمود قریشی اور حناربّانی کھر جیسے وزیرِ خارجہ بھی دیکھے اور انعام الحق جیسے عارضی وزیرِ خارجہ اور سرتاج عزیز جیسے مشیرِ خارجہ کو بھی آزما لیا ہے۔ اِن سب میں شاید حنا ربّانی کھر واحد وزیرِ خارجہ تھیں کہ جب وہ بات کرتیں تو بین الاقوامی ذرائع ابلاغ اُن پر توجہ مرکوز کرتے تھے۔ راقم نے خود پاکستان کے کئی وزرائے خارجہ کو دیگر ملکوں کے اپنے ہم منصبوں سے ملتے دیکھا ہے۔ محترمہ ربّانی کو ٹوکیو میں نہ صرف جاپانی وزیرِ خارجہ بلکہ سابق امریکی وزیرِ خارجہ ہیلیری کلنٹن سمیت دنیا بھر کے وزرائے خارجہ اور رہنماؤں سے ملتے قریب سے دیکھا اور محسوس کیا اُن کی بات پر توجہ دی جاتی ہے۔ لہٰذا عرض یہ ہے کہ پاکستان کا اگلا وزیرِ خارجہ ایسا ہو جو دنیا کے سامنے پاکستان کا موقف دلیل کیساتھ رکھ بھی سکے اور اپنی بات منوا بھی سکے۔
جو لوگ وزیرِ خارجہ کیلئے انگریزی زبان کی قابلیت کو اوّلیت دیتے ہیں اُن سے عرض ہے کہ رُوس کے وزیرِ خارجہ سرگئی لافروف، چین کے وزیرِ خارجہ وانگ ای اور اپنے اردگرد ایسے ہی درجنوں وزرائے خارجہ کو دیکھ لیں جو اپنی اپنی قومی زبان میں ہی سفارتکاری کرتے ہیں اور دنیا اُنہیں بغور سُنتی ہے۔ شمالی کوریا کے رہنماء کِم جونگ اُن کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے جُون میں منعقدہ پہلی سربراہ ملاقات کو دیکھ لیں کہ شمالی کوریائی رہنماء نے انگریزی کا ایک لفظ استعمال نہیں کیا لیکن دنیا کے تمام ذرائع ابلاغ میں مسلسل شہ سُرخیوں میں رہے۔ اُن کی بات اور موقف کو ہرطرف سُناگیا۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کی عام انتخابات میں کامیابی کے بعد پہلے خطاب کی ہی مثال لے لیں کہ اُنہوں ںے اپنی تقریر قومی زبان اُردو میں کی لیکن پُوری دنیا کے ذرائع ابلاغ نے اُس کا ترجمہ کرکے کئی دنوں تک نہ صرف تقریر کو بار بار دکھایا بلکہ آج بھی اُس پر تبصرے ہورہے ہیں۔ عمران خان کی اس تقریر نے دلوں کو کیسے چھُوا؟ ملک کے عوام اور غیرممالک میں بھی اِس کی پذیرائی کیوں ہوئی؟ اصل بات یہ تھی کہ خطاب عمران خان کا تھا، پاکستان کے اگلے وزیرِاعظم کا خطاب تھا، اپنی قومی زبان میں تھا اور اُن کی بات میں اتنا وزن اور اتنی گہرائی تھی کہ دنیا اُس پر توجہ دے۔ یعنی انگریزی سے قطع نظر پاکستان کے وزیرِاعظم یا وزیرِ خارجہ کی بات میں اتنا وزن ہوتا ہے کہ دنیا اُسے سُنے بشرطیکہ اُسے خود یہ اعتماد ہو کہ جو بات وہ کررہا ہے وہ سچّی بھی ہے اور دلائل کیساتھ بھی ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
راقم کو پُوری اُمید ہے کہ پاکستان کے اگلے وزیرِاعظم جو عنقریب وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے والے ہیں، ایک ایسے وزیرِ خارجہ کا انتخاب کریں گے جو پاکستان کا مقدمہ دنیا بھر میں لڑسکے اور دنیا کے ہر دارالحکومت میں پاکستان کے دوستوں کی تعداد میں اضافہ کرسکے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم بین الاقوامی سفارتکاری جیسے اہم شعبے کو مشیروں اور وزارتِ خارجہ کے ماتحت افسروں کے ذریعے چلانے کے بجائے عالمی تقاضوں اور پاکستان کے مفادات کیمطابق چلائیں اور گزشتہ پندرہ بیس سالوں میں جو نقصان ہوچکا ہے اُس کی تلافی کریں۔
ہم آپ کا آن لائن تجربہ بہتر بنانے کیلئے کُوکیز استعمال کرتے ہیں۔ اُردونیٹ پوڈکاسٹ ڈاٹ کام کی ویب سائٹ کا استعمال جاری رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ہماری کُوکیز و رازداری طریقِ عمل پالیسی اور شرائط وضوابط سے متفق ہیں۔ مزید آگاہی کیلئے رازداری طریقِ عمل دیکھیے۔منظوررازداری طریق عمل