(اسلام آباد-اُردونیٹ پوڈکاسٹ 26 ذوالحجہ1439ھ) امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو اور امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل جوزف ڈنفرڈ نے پاکستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد پہلی مرتبہ بُدھ کے روز اسلام آباد کا دورہ کیا ہے جہاں اُنہوں نے پاکستان کے وزیرِاعظم عمران خان، وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی اور فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی۔
امریکی وزیرِ خارجہ اسلام آباد میں نور خان فضائی اڈّے پر پہنچے تو پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ایک افسر نے اُن کا استقبال کیا تاہم امریکہ وزیرِ خارجہ کے استقبال کیلئے سُرخ قالین نہیں بچھایا گیا جو بظاہر اِس بات کا اشارہ تھا کہ دونوں ملکوں کے حالیہ تلخ تعلقات کی وجہ سے پاکستان میں امریکی وزیرِ خارجہ کا پرتپاک خیرمقدم نہیں کرسکتا۔
امریکی وزیرِ خارجہ اپنے وفد کے ہمراہ دفترِ خارجہ پہنچے تو وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے اُن کا استقبال کیا۔ یہ ملاقات 40 منٹ جاری رہی جس میں دونوں جانب سے تبادلہٴ خیالات کیا گیا۔
بعد ازاں، وزیرِ خارجہ پومپیو اور جنرل جوزف کی سربراہی میں امریکی وفد وزیرِاعظم عمران خان سے ملاقات کیلئے ایوانِ وزیراعظم پہنچا جہاں ایک گھنٹے تک ملاقات جاری رہی جس میں وزیرِ خارجہ قریشی اور پاک فوج کے سربراہ جنرل باجوہ بھی شریک تھے۔ اِس مشترکہ ملاقات سے یہ واضح ہوا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی اور اس کے انداز میں بہت بڑی تبدیلی آچکی ہے۔
اِس ملاقات کے بعد امریکی وزیرِ خارجہ اور اُن کا وفد اسلام آباد سے بھارت روانہ ہوا۔
بعد ازاں، وزیرِ خارجہ قریشی نے ایک اخباری کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے امریکی وفد کی اسلام آبادآمد کو تعلقات میں نئے دور کا آغاز قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو کے ساتھ 30 کروڑ ڈالر کی امداد روکنے کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی گئی۔ تاہم اُنہوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ اگر مذکورہ رقم امریکہ پر واجب الادا تھی تو اس کی ادائیگی پر کیوں زور نہیں دیا گیا۔ یاد رہے کہ امریکہ کیجانب سے مذکورہ رقم کو امداد کہا گیا تھا جبکہ وزیرِ خارجہ قریشی نے بتایا تھا کہ یہ امداد نہیں بلکہ امریکہ پر واجب الادا رقم ہے۔
وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ ہم نے امریکی وفد پر واضح کیا کہ ایک دوسرے کے تحفظات کو سن کر آگے بڑھنا ہوگا۔اُن کا کہنا تھا کہ ’’میں نے اُنہیں واشگاف الفاظ میں کہا کہ اگر تعلق کو آگے بڑھانا ہے تو یہ سچائی کی بنیاد پر ہونا چاہیئے، جو آپ کہیں گے میں سنوں گا اور جو میں کہوں گا وہ آپ کو سننا پڑے گا، جب تک ہمارے تحفظات سنے نہیں جائیں گے اُس وقت تک پیشرفت نہیں ہوگی‘‘۔
مذاکرات کے حوالے سے پاکستانی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ’’ہم نے ان کی خواہشات کو سمجھا اور اپنی توقعات اور تحفظات بھی اچھے انداز میں پیش کیے‘‘۔
جناب قریشی کا کہنا تھا کہ وزیرِ خارجہ پومیپو کو واضح اشارہ کیا کہ اُنہیں دیکھنا ہوگا کہ پاکستان میں جو نئی حکومت منتخب ہو کر آئی ہے اُس کا مؤقف کیا ہے اور لوگوں کو اس سے توقعات کیا ہیں، اور اس کو سمجھنا ہوگا۔
ہم آپ کا آن لائن تجربہ بہتر بنانے کیلئے کُوکیز استعمال کرتے ہیں۔ اُردونیٹ پوڈکاسٹ ڈاٹ کام کی ویب سائٹ کا استعمال جاری رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ہماری کُوکیز و رازداری طریقِ عمل پالیسی اور شرائط وضوابط سے متفق ہیں۔ مزید آگاہی کیلئے رازداری طریقِ عمل دیکھیے۔منظوررازداری طریق عمل