کراچی بندرگاہ پر پھنسی گاڑیوں کا مسئلہ حل ہونے پر کاروباری حلقوں کا ملا جُلا ردعمل

(کراچی۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 8 جمادی الثانی 1439ھ) استعمال شُدہ گاڑیوں کی درآمدت وبرآمدت کا کاروبار کرنے والے پاکستانیوں نے ان اطلاعات کا خیرمقدم کیا ہے کہ وفاقی کابینہ نے بالآخر کراچی کی بندرگاہ پر پھنسی ہوئی 10 ہزار سے زائد استعمال شُدہ گاڑیوں کو قانونی تقاضے پورا کرنے پر چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے جس سے اب یہ گاڑیاں بہت جلد درآمد کنندگان کے حوالے کردی جائیں گی۔

لیکن کئی کاروباری شخصیات نے حکومتِ پاکستان کیجانب سے استعمال شُدہ گاڑیوں کو غیرممالک میں مقیم پاکستانیوں کیلئے تحفے یا رہائش کی منتقلی کے طور پر لانے کی اجازت پر یہ کہتے ہوئے نکتہ چینی کی ہے کہ دراصل یہ سہولت سمندر پار پاکستانیوں کے نام پر تو ہے لیکن زیادہ تر استعمال شُدہ گاڑیاں وہ لوگ پاکستان برآمد کرتے ہیں جو یہ کاروبار کررہے ہیں اور درآمد کرنے والے بھی زیادہ تر کاروباری لوگ ہی ہوتے ہیں۔

یاد رہے کہ حکومت کی جانب سے پابندی کے بعد 10 ہزار سے زائد استعمال شُدہ گاڑیاں اکتوبر 2017ء سے کراچی کی بندرگاہ پر کھڑی ہیں۔ ایسا پہلی بار نہیں ہُوا بلکہ چند سالوں کے وقفوں کے بعد بہت سی حکومتیں کئی مرتبہ ایسا کرتی رہی ہیں۔

اطلاعات کیمطابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت کابینہ کے اجلاس میں غیر ملکی پاکستانیوں کے لیے رہائشی اسکیم کی منتقلی، سامان اور تحفے کے تحت بھیجی گئی گاڑیوں کو بندرگاہ سے چھوڑنے کی اجازت دے دی گئی۔

دبئی میں استعمال شُدہ گاڑیوں کی پاکستان برآمد کا کام کرنے والی ایک کمپنی کے مالک نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر کہا کہ سمندر پار پاکستانیوں کے نام پر جس منصوبے کے تحت حکومت گاڑیاں لانے کی اجازت دیتی ہے اُس سے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کا فائدہ نہیں ہوتا اور نہ ہی حکومت پاکستان کو حقیقی مالی فائدہ ہوتا ہے۔

اس کی وضاحت کرتے ہوئے اُنہوں نے بتایا کہ سچ یہ ہے کہ سمندر پار پاکستانیوں کے نام پر دراصل عام پاکستانی گاہک ہی یہ گاڑیاں درآمد کرتا ہے یا خریدتا ہے۔ مذکورہ کاروباری شخصیت نے مزید گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جاپان اور متحدہ عرب امارات وغیرہ سے جو گاڑیاں سمندر پار پاکستانیوں کی اسکیم پر ملک میں درآمد کی جاتی ہیں وہ مذکورہ دونوں ملکوں کیساتھ تجارت میں شمار نہیں کی جاتیں جس کی وجہ سے ان دونوں ملکوں کو تو قابل ذکر حد تک فائدہ ہوتا ہے کہ ہمارے ملک سے اُن کی فاضل تجارت کے گراف میں ان گاڑیوں کی مالیت شامل نہیں ہوتی۔ لیکن دوسری جانب پاکستان کو یہ نقصان پہنچتا ہے کہ باقاعدہ تجارت نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں زیادہ تر استعمال شُدہ گاڑیاں غیر تجارتی طریقے سے درآمد کی جاتی ہیں جن کا شمار درآمدی تجارت میں نہیں ہوتا۔  

جاپان اور متحدہ عرب امارات سے استعمال شُدہ گاڑیاں پاکستان برآمد کرنے والی کئی کاروباری شخصیات کا کہنا ہے کہ اگر سالانہ کروڑوں ڈالرکے اس کاروبار کو قانونی شکل دیدی جائے تو نہ صرف غیرضروری پیچیدگیوں سے بچا جاسکتا بلکہ حکومت پاکستان کو محصولات کی مد میں پہلے سے زیادہ آمدنی ہوگی اور مزید ہزاروں لوگوں کو ملک ہی میں روزگار بھی ملے گا۔ ایک کاروباری شخصیت کا کہنا تھا کہ پاکستان میں قومی سوچ رکھنے والی قیادت کا فقدان ہے۔ اُنہوں نے سوال کیا کہ کراچی یا گوادر استعمال شُدہ گاڑیوں کی بین الاقوامی منڈی کیوں نہیں بن سکتا؟

جاپان میں استعمال شُدہ گاڑیوں کا کاروبار کرنے والی برادری کا دیرینہ مطالبہ رہا ہے کہ کراچی یا گوادر میں دبئی اور شارجہ کی طرز پر استعمال شُدہ گاڑیوں کی ایک آزاد منڈی قائم کی جائے جہاں دیگر ملکوں کے گاہک آئیں اور گاڑیاں خرید کر اپنے ملک یا دیگر ممالک کو برآمد کرسکیں۔ ایسا ہونے کی صورت میں جاپان اور متحدہ عرب امارات میں استعمال شُدہ گاڑیوں کا کاروبار کرنے والے ہزاروں پاکستانی ملک میں کئی ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرسکتے ہیں اور پاکستان اس کاروبار کی ایک بڑی منڈی بن سکتا ہے جس کا سالانہ لین دین اربوں ڈالرہوگا جبکہ ایسا کرنے سے روزگار کے ہزاروں مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ مزید برآن لاتعداد ملکوں کے لوگ استعمال شُدہ گاڑیاں خریدنے کیلئے پاکستان آئیں گے جس سے سیاحتی صنعت کو بھی فروغ ملے گا۔