(بیجنگ۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 23 شعبان 1439ھ) شمالی کوریا کے رہنماء کِم جونگ اُن نے چین کا ایک اور حیران کُن دورہ کیا ہے جس میں اُنہوں نے چین کے صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی ہے۔ یاد رہے کہ کِم نے مارچ میں چین کا پہلا دورہ کیا تھا جس میں اُنہوں نے صدر شی اور دیگر اعلیٰ سطحی چینی عہدیداروں سے ملاقات کی تھی۔
چین کے سرکاری خبررساں ادارے شِن ہُوا کیمطابق چین کی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے جنرل سیکریٹری و صدر شی جن پنگ اور ورکرز پارٹی آف کوریا کے چیئرمین و ریاستی اُمور کمیٹی کے چیئرمین رہنماء کِم جونگ اُن نے شمال مشرقی صوبے لی آؤننگ کے شہر دالی آن میں 7 اور 8 مئی کو ملاقات کی ہے۔ دونوں رہنماؤں نے مذاکرات کیے جبکہ صدر شی نے کِم کیلئے استقبالیہ ضیافت کا اہتمام کیا۔ اُنہوں نے ساحل کے کنارے چہل قدمی بھی کی اور شمالی کوریائی رہنماء کے اعزاز میں صدر شی نے ظہرانہ بھی دیا۔
چینی خبررساں ادارے نے صدر شی کا یہ کہتے ہوئے حوالہ دیا ہے کہ ’’کامریڈ چیئرمین نے ایک ایسے نازک وقت میں جب جزیرہ نما کوریا کی صورتحال انتہائی اہم اورپیچیدہ تبدیلیوں سے گزر رہی ہےصرف 40 دن کے بعد دوبارہ ملاقات کیلئے چین کا خصوصی دورہ کیا ہے۔ اس سے اہمیت کی غمازی ہوتی ہے کہ جو کامریڈ اور ورکرزپارٹی آف کوریا کی مرکزی کمیٹی دونوں جماعتوں اور دونوں ملکوں کے تعلقات اور تزویراتی رابطے کو دیتے ہیں‘‘۔
شِن ہُوا کیمطابق اس کے جواب میں کِم نے کہا کہ ’’شمالی کوریا-چین تعلقات اور جزیرہ نما کوریا کی صورتحال دونوں رواں سال مارچ سے بامعنی پیشرفت سے گزرے ہیں۔ یہ میرے اور کامریڈ جنرل سیکریٹری کے مابین تاریخی ملاقات کے مثبت نتائج ہیں‘‘۔
صدرشی نے زور دیا کہ اُنہوں نے اور کِم نے رواں سال مارچ میں اپنی تاریخی پہلی ملاقات منعقد کی تھی جس کے دوران اُن کا طویل اور گہرا رابطہ ہوا اور نئے دور میں چین-شمالی کوریا تعلقات کی ترقّی سے متعلق چار پہلوؤں پر اُصولی اتفاقِ رائے پر پہنچے تھے۔
پہلا یہ کہ چین-شمالی کوریا کی روایتی دوستی دونوں ملکوں کا خزانہ رہی ہے۔ یہ ایک غیرمتزلزل اُصول اور دوستانہ چین-شمالی کوریا تعاون پر مبنی تعلقات بنانے کی خاطر دونوں ملکوں کیلئے واحد درست انتخاب ہے۔
دوسرا یہ کہ چین اور شمالی کوریا دونوں اشتراکی (سوشلسٹ) ملک ہیں اور ان کے دوطرفہ تعلقات بڑی تزویراتی اہمیت کے حامل ہیں۔ دونوں فریقوں کو اتحاد، تعاون، تبادلے اور باہمی طور پر سیکھنے کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔
تیسرا یہ کہ دونوں ملکوں کے مابین اعلیٰ سطحی تبادلے دوطرفہ تعلقات کی رہنمائی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جس کا کوئی متبادل نہیں۔ صدر شی کا کہنا ہے کہ دونوں فریقوں کو تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد تبادلے برقرار رکھنا چاہیئں، تزویراتی رابطے کو تقویت دینی چاہیئے، ادراک اور باہمی اعتماد ٹھوس بنانا چاہیئے اور مشترکہ مفادات کا تحفظ کرنا چاہیئے۔
چوتھا یہ کہ عوام سے عوام کے درمیان دوستی کی بنیاد کو مضبوط بنانا چین-شمالی کوریا تعلقات کی ترقّی کی غرض سے پیشرفت کیلئے ایک اہم راستہ ہے۔
اس تازہ ترین اور اچانک سربراہ ملاقات نے عالمی ذرائع ابلاغ اور سفارتکاروں کو حیران کردیا ہے۔ یاد رہے کہ مارچ میں چین کے صدر شی جن پنگ سے تاریخی سربراہ ملاقات کے بعد کِم نے 27 اپریل کو جنوبی کوریا کے صدر مُن جے اِن اور بعد ازاں پیانگ یانگ میں امریکہ کے نئے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیئو سے ملاقات کی تھی۔ وہ رواں ماہ کے اواخر یا جُون کے اوائل میں متوقع طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کرنے والے ہیں۔ اِن پیشرفتوں کے دوران اُن کا اچانک دورہٴ چین اور صدر شی سے ملاقات غیرمعمولی اہمیت کی حامل ہونے کے ساتھ ساتھ چین اور شمالی کوریا اور اِن دونوں ملکوں کے رہنماؤں کے درمیان مضبوط رابطہ کاری اور باہمی اعتماد کی عکّاسی کرتی ہے۔