(اسلام آباد-اُردونیٹ پوڈکاسٹ 20 ذوالقعدہ 1439ھ) پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے اپنی کُل جماعتی کانفرنس کے بعد متفقہ طور پر اعلان کیا ہے کہ جمیعتِ علماء اسلام (ف) سمیت تمام جماعتیں پارلیمان میں حلف اُٹھائیں گی لیکن پارلیمان کے اندر اور باہر احتجاج بھی کیا جائے گا جس کیلئے ایک 16 رُکنی کمیٹی حکمتِ عملی طے کرے گی۔
اِس اعلان کے بعد اب پاکستان تحریکِ انصاف کو جس نے قومی اسمبلی کی سب سے زیادہ نشستیں جیتی ہیں، یہ اطمینان تو ہوگیا اُس کی حکومت سازی کی کوشش میں کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی لیکن دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ اُسے ایک مضبوط اور متحدہ حزبِ اختلاف کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے بشرطیکہ دیگر بڑی جماعتوں کے اندر گروپ کی شکل میں کوئی بغاوتی طرزِ عمل سامنےنہ آئے۔
کُل جماعتی کانفرنس کا اجلاس اسلام آباد میں مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں محمد شہباز شریف کی زیرِ صدارت ہوا تھا جس میں انتخابات 2018ء میں مبینہ دھاندلی اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔
اِس اجلاس میں پیپلز پارٹی، مُسلم لیگ ن، متحدہ مجلسِ عمل، عوامی نیشنل پارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی کے رہنماؤں نے شرکت کی لیکن متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماء شریک نہیں ہوئے جنہوں نے پہلے ہی عدم شرکت کا اعلان کردیا تھا۔ اجلاس میں وزیرِاعظم، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کے معاملے پر بھی غور کیا گیا اور فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے مقابلے میں مذکورہ تینوں عہدوں پر مُشترکہ اُمیدوار لائے جائیں گے۔
کُل جماعتی کانفرنس کے اس اہم اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور سابق صدر آصف زرداری کی شرکت متوقع تھی لیکن ان کی جگہ پارٹی وفد نے شرکت کی۔ سیاسی حلقوں میں اسے معنی خیز قراردیا جارہا ہے۔
اجلاس کے بعد پیپلز پارٹی کی رُکنِ پارلیمان شیری رحمان نے بتایا کہ حزبِ اختلاف کی تمما جماعتوں نے ایوان میں جانے اور حلف اُٹھانے کا فیصلہ کیا ہے اور کہا کہ ہم ایوان میں جا کر کٹھ پتلی حکومت کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔
اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ کچھ نکات پر تمام سیاسی جماعتوں کا اتفاق ہو چکا ہے، متفقہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ وزیرِاعظم کا اُمیدوار مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ہو گا جبکہ اسپیکر کیلئے پیپلز پارٹی اور ڈپٹی اسپیکر کیلئے متحدہ مجلس عمل اپنا امیدوار میدان میں لائے گی۔ لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ متحدہ حزبِ اختلاف کیجانب سے قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف کون ہوگا۔ یہ چہ میگوئیاں بھی کی جارہی ہیں کہ قائدِ حزبِ اختلاف کے نام پر پاکستان پیپلز پارٹی اور مُسلم لیگ ن کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے۔
ماضیٴ قریب میں ایک دوسرے کی شدید مخالفت کرنے والی یہ جماعتیں 2018ء کے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی پاکستان تحریکِ انصاف کیخلاف بظاہر متحد نظر آرہی ہیں۔ لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دیکھنا یہ ہے کہ یہ قومی اسمبلی میں حلف برداری کے بعد یہ جماعتیں کب تک متحد رہ سکیں گی۔ تحریکِ انصاف نے حکومت سازی کیلئے اپنی کوششیں تیز کردی ہیں اور امکان ہے کہ جمعہ یا ہفتے کے روز وہ اس سلسلے میں اہم اعلان کرسکتی ہے۔
ہم آپ کا آن لائن تجربہ بہتر بنانے کیلئے کُوکیز استعمال کرتے ہیں۔ اُردونیٹ پوڈکاسٹ ڈاٹ کام کی ویب سائٹ کا استعمال جاری رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ہماری کُوکیز و رازداری طریقِ عمل پالیسی اور شرائط وضوابط سے متفق ہیں۔ مزید آگاہی کیلئے رازداری طریقِ عمل دیکھیے۔منظوررازداری طریق عمل