کِم ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے پر تیار لیکن حکومت کی سلامتی پر تشویش رکھتے ہیں: مُن جے اِن

(سیئول۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 11رمضان 1439ھ) جنوبی کوریا کے صدر مُن جے اِن نے شمالی کوریا کے رہنماء کِم جونگ اُن سے ہفتے کے روز اپنی اچانک ملاقات کے بعد اتوار کے روز صدارتی دفتر میں ایک اخباری کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ کِم جونگ اُن نے جزیرہ نما کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں سے مکمل پاک کرنے کے اپنے عزم کا واضح اظہار کیا ہے لیکن وہ اپنی حکومت کی سلامتی کے بارے میں تشویش رکھتے ہیں۔

جنوبی کوریائی صدر مُن نے ہفتے کے روز دونوں ملکوں کی سرحد پر واقع گاؤں پن مُنجوم کی شمالی جانب، شمالی کوریائی عملداری والے مقام تھونگِل گک میں ہفتے کی دوپہرکو ملاقات کی تھی۔ اطلاعات کیمطابق یہ ملاقات تقریبا تین گھنٹے جاری رہی۔

اتوار کے روز سیئول میں مقامی وقت کیمطابق صبح 10 بجے صدارتی دفتر میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر مُن جے اِن نے ملاقات کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ شمالی کوریائی رہنماء نے ایک مرتبہ پھر گزشتہ روز یہ واضح کیا ہے کہ وہ جزیرہ نُما کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں سے مکمل پاک کردینے کیلئے پُرعزم ہیں۔ جناب مُن نے کہا کہ اپنے ملک کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کا کِم کا عزم واضح تھا لیکن جناب کِم کیلئے جو بات واضح نہیں تھی وہ اُن کی حکومت کیلئے واشنگٹن کی ضمانتوں کی سطح ہے۔

جنوبی کوریائی صدر نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ’’چیئرمین کِم کیلئے جو بات پریشان کُن ہے وہ یہ ہے کہ آیا وہ امریکہ کے اِس وعدے پر مکمل بھروسہ کریں یا نہیں کہ وہ شمالی کوریا سے اپنے مخاصمانہ تعلقات ختم کرے گا اور یہ کہ ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کی صورت میں واشنگٹن اُنکی حکومت کی ضمانت دے گا یا نہیں۔

صدر مُن نے یہ بھی بتایا کہ ’’کِم نے اپنے اس مؤقف کا اظہار کیا کہ وہ جنوبی کوریا کیساتھ محاذآرائی و جنگ کی تاریخ ختم کرنے اور امن اور خوشحالی کی راہ کیجانب ایک کامیاب شمالی کوریا-امریکہ سربراہ  ملاقات کے ذریعے تعاون کریں گے‘‘۔  

جناب مُن نے امریکہ اور شمالی کوریا پر یہ زور دیتے ہوئے کہ وہ براہِ راست بات چیت کے ذریعے ایک دوسرے کے وعدے کی تصدیق کریں بتایا کہ ’’ میں نے فریقین کیلئے ایک دوسرے سے براہِ راست رابطہ کے ذریعے بات چیت کی ضرورت پر زور دیا ہے تاکہ غلط فہمیوں کا خاتمہ ہو اور کہا کہ سربراہ ملاقات کے ایجنڈے کے موضوعات پر عملی سطح کی بات چیت کے ذریعے کافی پیشگی مذاکرات کی ضرورت ہوگی‘‘ اور یہ کہ چیئرمین کِم نے اس بات پر اتفاقِ رائے کیا ہے۔

صدر مُن کیمطابق اس اچانک ملاقات کی تجویز شمالی کوریا کیجانب سے دی گئی تھی جسے اُنہوں نے بخوشی قبول کرلیا۔ اُنہوں نے بتایا کہ دونوں رہنماؤں نے یہ اتفاق رائے بھی کیا ہے کہ وہ ضرورت پڑنے پر کسی بھی وقت ٹیلیفون کے ذریعے بات چیت اور براہِ راست ملاقات کرسکتے ہیں۔

جنوبی کوریائی صدر نے آخر میں اپنے اس بیان کو دہرایا کہ ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کیلئے کِم پُرخلوص تھے۔ اُنہوں نے کِم کیجانب سے ہمگیونگ صوبے میں واقع پنگیری ایٹمی تجربہ گاہ بند کرنے اور ایٹمی وبیلسٹک میزائل تجربات معطل کرنے کا حوالہ بھی دیا۔

اُنہوں نے مزید کہا کسی پہاڑ کو سر کرنا اُ س وقت زیادہ مشکل ہوجاتا ہے جب پہاڑ کی چوٹی نظر آنے لگتی ہے، بالکل اسی طرح جزیرہ نما کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں سے مکمل پاک کرنا اور امن آسان نہ ہوگا۔ اُنہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ بطور صدر اُنہیں عوام نے جو ذمہ داری اور اختیارات دیے ہیں اُس کیساتھ وہ اس راہ پر آخر تک جائیں گے۔