(واشنگٹن۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 13 فروری 2018) امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعتراف کیا ہے کہ مقبوضہ فلسطین میں یہودی آبادکاری سے امن عمل کی کوششیں متاثر ہوسکتی ہیں۔ یاد رہے کہ اُنہوں نے عالمی دباؤ کو نظر انداز کرتے ہوئے یکطرفہ طور پر القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے تل ابیب سے امریکی سفارتخانے کو وہاں منتقل کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
اطلاعات کیمطابق صدر ٹرمپ نے ایک اسرائیلی اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ یہودی آبادکاری کے معاملے میں اسرائیل احتیاط سے کام لے کیونکہ اس سے فلسطین امن عمل پیچیدگی کا شکار ہوسکتا ہے۔
مقبوض فلسطین کے علاقوں مشرقی القدس اور مغربی کنارے میں 1967ء کے بعد سے تعمیر کی جانے والی غیرقانونی بستیوں میں اسرائیل نے چھ لاکھ سے زائد یہودی آبادی کردیے ہیں جو بین الاقوامی قوانین کے تحت غیر قانونی عمل ہے اور عالمی برادری بھی اس آبادکاری کو تسلیم نہیں کرتی۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ فلسطین اور اسرائیل اس وقت امن مذاکرات کیلئے راضی نہیں ہیں۔ اُنہوں نے مزید کہ کہا ہم اسرائیل سے یہودی آبادکاری کے مسئلے پر بات کریں گے۔ ٹرمپ نے یہ کہتے ہوئے کہ ان بستیوں کی وجہ سے معاملات ہمیشہ پیچیدگی کا شکار ہوئے ہیں پہلی بار اسرائیل کو خبردار کیا کہ اُسے ان بستیوں کی تعمیر کے حوالے سے محتاط ہونا چاہیئے۔
یاد رہے کہ صدر ٹرمپ کیجانب سے یکطرفہ طور پر مقبوضہ القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے بعد امریکہ کو سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں واضح سفارتی تنہائی اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ برطانیہ، فرانس، جاپان، جنوبی کوریا اور بھارت جیسے اُس کے اتحادیوں اور شراکتداروں نے بھی امریکی صدر کے فیصلے کیخلاف ووٹ دیا جس کی وجہ سے جنرل اسمبلی میں فلسطینیوں کے حق میں فیصلہ آیا اور قرارداد بھاری اکثریت سے منظور ہوئی۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کیجانب سے یکطرفہ طور پر القدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے بعد مشرق وسطیٰ سمیت اسلامی دنیا اور بین الاقوامی طور پر واشنگٹن کی ساکھ متاثر ہوئی ہے اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اقوامِ متحدہ میں امریکی اثر و رسوخ شدید متاثر ہوا ہے۔
دوسری جانب، فلسطین کے صدر محمود عبّاس نے صدر ٹرمپ کے یکطرفہ فیصلے کے بعد فلسطین کے مسئلے میں امریکہ کو بطور ثالث قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔ فلسطینی انتظامیہ نے امریکہ کے نائب صدر مائیک پینس کے دورہٴ فلسطین میں اُنہیں خوش آمدید نہ کہنے کا اعلان کیا اور اُن سے بات چیت کو مُسترد کر دیا جس سے فلسطین کے حوالے سے مشرق وسطیٰ میں امریکی کردار پر سوالیہ نشان لگ گئے ہیں۔