امریکہ دہشتگردوں سے تعلقات ختم کرے: ترکی

(استنبول۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 11 فروری 2018)  ترکی کے نائب وزیراعظم باقر بوزدغ نے زور دیا ہے کہ اگر امریکہ چاہتا ہے کہ ترکی کیساتھ اچھّے تعلقات رکھے جائیں تو اُسے دہشتگردوں کیلئے اپنی مدد سے دستبردار ہوجانا چاہیئے۔ اُنہوں نے امریکہ سے مطالبہ کیا کہ وہ پی وائی ڈی ۔ پی کے کے دہشتگردوں کی ہر قسم کی امداد لازمی طور پر ختم کرے۔

 ترک ذرائع ابلاغ کیمطابق اُنہوں نے کہا کہ ترکی نیٹو اتحادی امریکہ کیساتھ اچھّے تعلقات کا خواہاں ہے جبکہ امریکہ بھی ہمارے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے۔ لہٰذا یہ بات واضح ہے کہ آپ (امریکہ) دہشتگردی کی مدد نہیں کریں گے، دہشتگردوں کو ہتھیار نہیں دیں گے اور دہشتگردوں کو تربیت نہں دیں گے۔

امریکہ کیجانب سے کُردعلیحدگی پسندوں کو ہتھیار، تربیت اور مالی مدد کی فراہمی پر ترکی نے شدید احتجاج کرتے ہوئے واشنگٹن کی مذمّت کی ہے۔ اس معاملے پر دونوں ملکوں کے تعلقات کشیدہ ہیں۔

ترکی سمیت یورپی ممالک اور امریکہ نے بھی کُرد گروپوں پی وائی ڈی ۔ پی کے کے کو دہشتگرد قرار دے رکھا ہے لیکن واشنگٹن کی طرف سے شام میں ان گروپوں سے منسلکہ گروہوں کو باقاعدہ مدد فراہم کی جارہی ہے جبکہ امریکی ادارے ان گروہوں کے جنگجوؤں کو تربیت بھی فراہم کررہے ہیں۔ یہ بالکل اُسی طرح ہے جس طرح امریکہ نے 1979ء میں افغانستان پر روسی جارحیت اور قبضے کے بعد افغان مجاہدین کو ہتھیار اور تربیت فراہم کی تھی اور اب اُنہیں دہشتگرد قراردیتا ہے۔ رُوس کیخلاف افغان جنگ میں امریکہ افغان مجاہدین کے گروپوں کا اتحادی تھا لیکن جب ان ہی مجاہدین کے گروپوں نے امریکہ کی افغانستان پر جارحیت اور وہاں فوجی اڈّے قائم کرنے کی مخالفت تو واشنگٹن انہیں دہشتگرد کہتا ہے۔

کُرد علیحدگی پسند گروپ ترکی اور شام کے سرحدی علاقوں پر نہ صرف مسلح کارروائیاں کرتے رہتے ہیں بلکہ انہوں نے استنبول اور انقرہ جیسے ترکی کے بڑے شہروں میں دہشتگرد حملے بھی کیے   ہیں۔

دوسری جانب فیتو نامی مذہبی گروپ جس کا سربراہ فتح اللہ گولن امریکہ میں مقیم ہے، اُس نے 15 جولائی 2016ء کو ترکی میں فوجی بغاوت کے ذریعے جمہوری حکومت تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی جسے ترک عوام نے مکمل ناکام بنادیا تھا۔

ترکی فیتو گروپ کیخلاف بڑی تعداد میں ثبوت فراہم کرتے ہوئے واشنگٹن سے مطالبہ کررہا ہے کہ فتح اللہ گولن کو حوالے کیا جائے لیکن امریکہ نے ابھی تک ملزم کو ملک سے بیدخل کرکے ترکی کے حوالے نہیں کیا۔ اس معاملے پر واشنگٹن اور انقرہ کے تعلقات کشیدہ ہیں جبکہ ترکی کے عوام میں امریکہ کیلئے ناپسندیدگی کے جذبات وسیع ہوتے جارہے ہیں۔

دہشتگردوں سے نبٹنے پرامریکی موقف اور عمل میں واضح تضاد کی وجہ سے کئی اتحادی ممالک اب اُس سے علیحدہ ہوتے جارہے ہیں جن میں ترکی اور پاکستان سرفہرست ہیں۔