ایران سے جوہری سمجھوتے پر امریکہ۔یورپی برادری اتحاد منقسم، واشنگٹن کو تنہائی کا سامنا

(برسلز۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 27 شعبان 1439ھ) ایران سے طے شُدہ جوہری سمجھوتے پر امریکہ اور یورپی برادری کا اتحاد منقسم ہوگیا ہے جس کے بعد واشنگٹن کو سفارتی تنہائی کا سامنا ہے۔ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کیجانب سے اس اعلان کے بعد یورپ نے اُن کی ہمنوائی سے انکار کردیا ہے کہ امریکہ ایران کیساتھ جوہری سمجھوتے سے نکل رہا ہے اور وہ تہران پر پابندیاں عائد کرے گا۔

لیکن یورپی یونین نے اعلان کیا ہے کہ وہ ایران سے جوہری معاہدے کی پاسداری کی جائے گی جبکہ فرانس کے صدر ایمانوئل میکخواں، جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکیل اور برطانیہ نے بھی واضح کردیا ہے کہ وہ ایران کیساتھ جوہری سمجھوتے پر کاربند رہیں گے۔ دوسری جانب، ایران کا کہنا ہے کہ وہ امریکہ کے بغیر بھی جوہری سمجھوتے میں رہے گا اور اس سلسلے میں یورپی رہنماؤں سے بات چیت کی جائیگی۔

قبل ازیں، فرانسیسی صدر میکخواں نے ایران کے صدر حسن روحانی سے ٹیلیفون پر بات چیت کی اور اُن پر زور دیا تھا کہ تہران جوہری سمجھوتے پر عملدرآمد کرتا رہے۔ میکخواں نے ایرانی صدر کو بتایا تھا کہ جوہری سمجھوتے سے امریکہ کی دستبرداری کے باوجود یورپی ممالک سمجھوتے پر کاربند رہیں گے۔

دریں اثناء، یورپی یونین کے خارجہ اُمور اور سلامتی پالیسی کی اعلیٰ نمائندہ فریڈریکا موگیرینی نے اعلان کیا ہے کہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے وزرائے خارجہ ایران کے جوہری سمجھوتے سے متعلق بات چیت کیلئے منگل کے روز برسلز میں ملاقات کریں گے۔ اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ یورپی یونین کے اعلیٰ سفارتکار ایران کے وزیرخارجہ جواد ظریف سے ملاقات بھی کریں گے۔

اُدھر ایران کے اعلان کیمطابق وزیرخارجہ جواد ظریف برسلز کے دورے سے قبل بیجنگ اور ماسکو جائیں گے جس کا بظاہر مقصد چین اور روس سے جوہری سمجھوتے کے حوالے سے بات چیت کرنا اور واشنگٹن کو یہ باور کروانا لگتا ہے کہ وہ اِس معاملے پرتنہاء ہوگیا ہے۔

یاد رہے کہ مقبوضہ القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا اور ایران کے جوہری سمجھوتے سے امریکہ کی دستبرداری صدر ٹرمپ کے دو ایسے متنازع فیصلے ہیں جن پر یورپ اور یورپی رہنماء اُن سے اتفاق نہیں کرتے۔ اِن فیصلوں پر امریکی صدر اور واشنگٹن کے یورپی اتحادی واضح طور پر تقسیم ہوگئے ہیں۔