برطانیہ کا 23 رُوسی سفارتکاروں کوسات روزمیں ملک چھوڑنےکاحکم، رُوس کیجانب سے مذمّت

(لندن۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 27 جمادی الثانی 1439ھ)  برطانیہ میں مقیم دوہرے روسی جاسوس کو زہر دینے کے الزام میں برطانوی وزیرِاعظم تھریسا مے نے روس کے 23 سفارتکاروں کو ایک ہفتے کے اندر اندر ملک چھوڑنے کا حکم دیدیا ہے۔ محترمہ مے نے امکان ظاہر کیا ہے کہ برطانیہ کے سیلیسبری شہر میں روسی خفیہ ادارے کے ایک سابق افسر سرگئی سکریپل اور اُس کی بیٹی کو روس میں تیار کردہ فوجی سطح کا اعصاب متاثر کرنے والا کیمیائی مواد دیا گیا ہے۔ اُنہوں نے برطانیہ میں روسی سفارتخانہ سے کہا تھا کہ منگل کی شب تک اس اس بارے میں وضاحت دی جائے تاہم اطلاعات کیمطابق رُوس نے الزام کو مُسترد کیا ہے اور اُس نے برطانوی وزیرِاعظم کے کہنے پر کوئی وضاحت نہیں دی۔

دونوں ملکوں کے مابین تعلقات پہلے سے زیادہ کشیدہ ہوگئے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ روس کا سابق فوجی جاسوس دوہری جاسوسی کرتا تھا، وہ مبینہ طور پر روس کے ساتھ ساتھ برطانیہ کیلئے بھی کام کرتا رہا اور کچھ عرصے سے برطانیہ ہی میں مقیم ہے۔ اُسے اور اُس کی بیٹی کو سیلیسبری شہر میں ایک جگہ نڈھال حالت میں پایا گیا تھا جبکہ برطانوی ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کیمطابق دونوں کی حالت نازک ہے۔

دوسری جانب رُوس نے برطانوی اقدام کی مذمّت کرتے ہوئے اُس کی جانب سے روسی سفارتکاروں کو ملک چھوڑنے کا حکم دینے کو جارحانہ، نابلِ قبول اور بلاجواز کارروائی قراردیا ہے۔

روس کے خبررساں ادارے تاس کیمطابق وزیرِ خارجہ سرگئی لافروف نے کہا ہے کہ ماسکو سابق کرنل سرگئی سکریپل اور اُن کی بیٹی کو زہر دینے کا کوئی خیال نہیں تھا تاہم جو رُوسوفوبیا مہم چلانے کی کوشش کررہے ہیں شاید اُن کا ہو۔

اُنہوں نے نشاندہی کی کہ کیمیائی ہتھیاروں کے ضابطے کیمطابق برطانیہ اس بات کا پابند ہے کہ وہ اُسے جس ملک پر شُبہ ہے اُسے سرکاری طور پر درخواست بھیجے۔ تاہم جناب لافروف نے بتایا کہ ایسی کوئی درخواست نہیں بھیجی گئی بلکہ کیمیائی ہتھیاروں کی ممانعت کی تنظیم اوپی سی ڈبلیو کیلئے برطانوی نمائندے نے یہ پوچھنا شروع کردیا کہ روس کیوں کیمیائی ہتھیاروں کے ضابطے کا حوالہ دینے کی کوشش کررہا ہے۔

اطلاعات کیمطابق برطانیہ اِس معاملے کو اقوامِ متحدہ میں اُٹھانے کا ارادہ رکھتا ہے اور اُسے اس سلسلے میں امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔ دوسری جانب لگتا ہے کہ ماسکو بھی لندن کے اقدام کا جواب سخت ردعمل کی صورت میں دے گا۔