ترکی، رُوس اور ایران کا شام کی تقسیم کی کوششوں کیخلاف مشترکہ عزم کا اعلان

(انقرہ۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 19 رجب 1439ھ)  ترکی کی میزبانی میں انقرہ میں منعقدہ سربراہ اجلاس کے بعد جاری کردہ ایک مشترکہ اعلامیہ میں ترکی، رُوس اور ایران نے شام کی تقسیم کی کوششوں کیخلاف مُشترکہ عزم کا اظہار کیا ہے۔

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان، رُوس کے صدر ولادیمیر پُوٹن اور ایران کے صدر حسن روحانی کے ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہنے والے بندکمرہ اجلاس کے بعد جارے کیے جانے والے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ ’’دہشتگردی سے جنگ‘‘ کے نام پر شام میں نئے زمینی حقائق تخلیق کرنے کی ’’تمام کوششوں کو مُسترد‘‘ کرتے ہیں۔

ترکی کے ایوانِ صدر میں منعقدہ سہ فریقی سربراہ اجلاس

بیان میں شام کی خودمختاری کیلئے مضبوط اور مسلسل عزم کرنے کے علاوہ تینوں ملکوں کیجانب سے شام کی تقسیم اور اُس کی خودمختاری وجغرافیائی سالمیت کے ساتھ ساتھ ہمسایہ ممالک کی قومی سلامتی کیلئے متحد رہنے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ شام میں صورتحال تیزی کیساتھ تبدیل ہورہی ہے جبکہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی افواج کو شام سے جلد نکالنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ ترکی نے شام کے شہر عفرین سے دہشتگردوں اور امریکی حمایت یافتہ مسلح کُرد علیحدگی پسند گروہوں کو نکالنے کیلئے وہاں ایک کامیاب فوجی کارروائی کی تھی جس کے نتیجے میں اِس شہر کو مسلح باغیوں سے آزاد کروالیا گیا ہے۔ دوسری جانب شامی فوج نے باغیوں کے زیرِ قبضہ معروف شہر غوطہ کو اپنی عملداری میں لے لیا ہے جس کے بعد شام میں باغی قوتوں کا زور نمایاں طور پر ٹوٹ گیا ہے۔

انقرہ کے ایوانِ صدر میں منعقدہ سربراہ اجلاس میں ترکی، رُوس اور ایران نے شام میں نئے آئین کی کوششوں کی حمایت کرتے ہوئے مسئلے کے کسی فوجی حل کی پُرزور مخالفت کی ہے۔

شام کے بحران کی وجہ سے لگ بھگ 40 لاکھ شامی باشندے کئی ملکوں میں پناہ حاصل کرنے پر مجبور ہوئے ہیں جن میں سے اطلاعات کیمطابق 30 لاکھ سے زائد ترکی میں ہیں۔ کئی شہروں کی تباہی کے بعد لاکھوں شامی باشندے اپنے گھروں سے اندرونِ ملک دیگر علاقوں میں بھی منتقل ہوئے ہیں۔

انقرہ میں منعقدہ سربراہ اجلاس میں ترکی، رُوس اور ایران نے زور دیا ہے کہ بین الاقوامی برادری خاص طور پر اقوام متحدہ اور انسانی امداد کے اُس کے ادارے شام کی عوام اور پناہ گزینوں کیلئے اپنی امداد اور سرگرمیوں میں اضافہ کریں۔