روہنگیا مسلمانوں کے استحصال پر خاموشی کے سبب آن ساں سُوچی ایک اور اعزاز سے محروم

میانمار سے جانیں بچاکر بنگلہ دیش پہنچنے والے روہنگیا مسلمان پناہ گزینوں کا ایک کیمپ

(واشنگٹن۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 20 جمادی الثانی 1439ھ) میانمار کی عملی قائد آن ساں سُوچی کی بین الاقوامی ساکھ مسلسل گرتی جارہی ہے جس کہ وجہ ملک کے روہنگیا مسلمانوں پر مظالم اور نسل کشی پر اُن کی خاموشی اور معاملے کو حل کرنے میں عدم دلچسپی ہے۔ امریکہ کے ہولوکاسٹ عجائب گھر نے آن ساں سُوچی سے وہ اعزاز واپس لینے کا اعلان کیا ہے جو اُنہیں فوجی آمریت کیخلاف جدوجہد پر 2012ء میں دیا گیا تھا۔

اطلاعات کیمطابق مذکورہ عجائب گھر کے بنیادی مقاصد میں نفرت سے نبردآزمائی، نسل کشی کو روکنا اور انسانی وقار کو فروغ دینا شامل ہے۔ اِس عجائب گھر نے بُدھ کے روز جاریکردہ اپنے اعلان میں کہا ہے کہ وہ آن ساں سُوچی کو دیا گیا اعزاز منسوخ کررہا ہے۔ یاد رہے برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی نے بھی آن ساں سُوچی کو دیا گیا اعزازی تمغہ واپس لینے کا اعلان کیا تھا جبکہ نوبل امن کمیٹی پر مسلسل زور دیا جارہا ہے کہ وہ میانمار کی رہنماء کو دیا گیا نوبل انعام واپس لے کیونکہ آن ساں سُوچی ملک میں روہنگیا مسلمان اقلیت کے تحفظ میں مکمل ناکام ہوگئی ہے جن کی نسل کشی کی جارہی ہے۔

عالمی تنقید کے بعد آن ساں سُوچی کی زیرِ قیادت حکومت نے یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کے قتلِ عام، اُن کے گھروں اور کاروبار کو نذرِ آتش کرنے کے واقعات اور جبری نقل مکانی کی تفتیش کرے گی۔ لیکن ان یاددہانیوں کے باوجود صورتحال میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی اور نہ ہی روہنگیا مسلمانوں کا قتلِ عام اور استحصال کرنے والوں کو گرفتار کیا گیا۔

معروف تنظیم سرحدوں سے مبرّا ڈاکٹرز کیمطابق میانمار کی ریاست راکھائن میں گزشتہ سال 25 اگست سے 24 ستمبر کے دوران کم ازکم 9 ہزار روہنگیا مسلمانوں کو قتل کیا گیا جن میں پانچ سال سے کم عمر کے 730 بچّے شامل ہیں۔

مذکورہ ریاست میں گزشت سال اگست کے مہینے سے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی اور اُن کے پورے کے پورے گاؤں کو نذرِ آتش کیے جانے کے بعد ساڑھے سات لاکھ سے زائد روہنگیا باشندوں نے فرار ہوکرہمسایہ ملک بنگلہ دیش میں پناہ لی ہے۔

میانمار کی حکومت آزاد ذرائع ابلاغ اور اقوامِ متحدہ سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں کو ریاست راکھائن میں جانے کی اجازت نہیں دیتی جس کی وجہ سے تجزیہ کاروں کیمطابق بہت سے تلخ اور ہولناک حقائق ابھی سامنے نہیں آئے ہیں۔