علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں محمد علی جناح کی تصویر کا تنازع، علاقے کی انٹرنیٹ سہولت معطل

(علیگڑھ۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 19 شعبان 1439ھ) بھارت کی شمالی ریاست اُترپردیش کے معروف شہر علیگڑھ میں قائم بین الاقوامی شہرت یافتہ علیگڑھ مُسلم یونیورسٹی میں بانیٴ پاکستان محمد علی جناح کی  آویزاں تصویر پر ہندو انتہاء پسند حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے مقامی رکنِ اسمبلی کیجانب سے اعتراضات اُٹھائے جانے پر پیدا ہونے والا تنازع شدّت اختیار کرگیا ہے۔

یہ تنازع اُس وقت شروع ہوا جب گزشتہ ہفتے بھارتیہ جنتا پارٹی کے مقامی رکن پارلیمان ساتش گوتم نے یونیورسٹی کے وائس چانسلر طارق منصور کو یہ دھمکی آمیز پیغام لکھا کہ یونیورسٹی میں جناح کی تصویر کیوں لگی ہوئی ہے۔ بعد ازاں ہندو اخبارات اور وزیراعظم مودی کی جماعت کے انتہاء پسندوں نے سماجی ذرائع ابلاغ پر علیگڑھ مُسلم یونیورسٹی اور مسلمانوں کیخلاف اشتعال انگیز اور دھمکی آمیز پیغامات جاری کرنے شروع کردیے جس کے باعث مسلمان طلباء نے بھی منہ توڑ جوابات دیے اور وہ اِس موقف پر ڈٹ گئے کہ باہر کے کسی بھی شخص کو طلباء اور اس یونیورسٹی کے معاملات میں دخل اندازی کی اجازت نہیں دیں گے۔ یہ معاملہ اُس وقت مزید بڑھ گیا جب جمعرات کے روز اُترپردیش کے معروف ہندو شدّت پسند وزیراعلیٰ یوگی ادتیاناتھ نے بھی علیگڑھ مُسلم یونیورسٹی سے محمد علی جناح کی تصویر ہٹانے کا مطالبہ کردیا۔

جمعہ کے روز یونیورسٹی کے علاقے میں انٹرنیٹ کی سہولت کو معطل کردیا گیا اور علاقے کے مجسٹریٹ نے اس بندش کہ وجہ اشتعال انگیز پیغامات کو روکنا بیان کیا۔ بعض طلباء نے الزام لگایا کہ مسلمان طلباء کو آپس میں رابطے سے روکنے کیلئے یہ اقدام کیا گیا ہے کیونکہ دیگر علاقوں میں ہندو انتہاء پسندوں نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اور مسلمان طلباء کیخلاف اشتعال انگیز پیغامات کا سلسلہ جاری رکھا جس پر حکومت نے قابو پانے یا روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔

جمعہ کے روز بھی اِس تاریخی یونیورسٹی کے طلباء نے مرکزی دروازے کے باہر اپنا دھرنا جاری رکھا جن کا موقف ہے کہ یونیورسٹی کی طلباء یونین کے ہال میں محمد علی جناح کی تصویر 1938ء سے آویزاں ہے کیونکہ وہ اِس مشہور اور تاریخی یونین کے بانیان میں شامل ہیں۔ طلباء نے مرکزی دروازے کے  قریب ہی نمازِ جمعہ ادا کی جس میں اساتذہ نے بھی شرکت کی۔

طلباء یونین کے سربراہ مشکور احمد عثمانی نے اطلاعات کیمطابق کہا ہے کہ مذکورہ تصویر اُس طریقہٴ کار کا حصّہ ہے جس کے تحت علیگرھ مُسلم یونیورسٹی کی طلباء یونین اُن تمام عظیم قائدین کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہے جنہوں نے تقسیم سے پہلے اس یونیورسٹی کیمپس کا دورہ کیا تھا۔

یاد رہے کہ مئی 2014ء میں وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کے قیام کے بعد سے بھارت میں مسلمانوں کیخلاف کارروائیوں، امتیازی سلوک اور تعصب کے رجحان میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ گائے جسے ہندو مذہب میں مقدس سمجھا جاتا ہے، اُس کی حفاظت کے نام پر بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی سرپرست آر ایس ایس یعنی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ  نامی ہندو انتہاء پسند تنظیم کے کارندوں نے مسلمانوں کے قتل سمیت اُن پر شدید تشدّد کیا ہے اور اسی کی آڑ میں بھارت کے مسلمانوں کو خوف وہراس میں رکھنے کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ اس تنظیم کو بھارتی حکومت اور وزیراعظم مودی کی پشت پناہی حاصل ہے جس کی وجہ سے ان کے جرائم قانون کی گرفت میں نہیں آتے بلکہ پولیس جیسے اداروں میں موجود مذکورہ تنظیم کے اراکین پر دہشتگردی اور مسلمانوں سمیت اقلیتوں پر ظلم وزیادتی کے الزامات لگتے رہے ہیں۔