فرانسیسی صدر کے اظہارِ خیال کی آزادی کے موقف میں تضاد، ترکی کی تنقید

(انقرہ۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 15 رمضان 1439ھ) فرانس کے ایک ہفت روزہ جریدے میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کیخلاف منفی اور بے بنیاد پروپیگنڈے پر ترک نژاد فرانسیسی باشندوں کے احتجاج کو فرانس کے صدر ایمانوئل میکخواں نے یہ کہہ کر رد کردیا کہ ذرائع ابلاغ کی آزادی جمہوریت ہے۔ 

صدر اردوغان نہ صرف ملک کے اندر بلکہ ترک نژاد فرانسیسی شہریوں میں بھی مقبول ہیں جنہوں نے لاپوائنٹ نامی جریدے کے پوسٹرز پر شدید اعتراض کیا تھا جو انتہائی اشتعال انگیز ہیں۔ پیرس میں مقیم ایک 44 سالہ ترک نژاد فرانسیسی شہری نے کہا ہے کہ میکخواں سخت غلطی پر ہیں کیونکہ ذرائع ابلاغ کی آزادی، آزادیٴ اظہار اور جمہوریت محض یہ نہیں کہ کسی بھی شخصیت کے بارے میں جو چاہے شائع کردیا جائے یا کسی کی تضحیک کی جائے بلکہ آزادیٴ اظہار اور جمہوریت کی اصل روح یہ ہے کہ اشتعال انگیزی اور کردار کشی سے گریز کرتے ہوئے دوسروں کی رائے کا بھی احترام کیا جائے۔ مذکورہ شخص کا کہنا تھا کہ صدر میکخواں آزادیٴ اظہار کے نام پر ایک جریدے کا تو دفاع کررہے ہیں لیکن اُنہوں نے اُن لوگوں کے جذبات، اظہارِ رائے اور جمہوری حق کی تذلیل کی ہے جو کردار کشی کے عکّاس جریدے کے اشتعال انگیز پوسٹر پر احتجاج کررہے تھے۔ ترک نژاد اس فرانسیسی شہری کا کہنا تھا کہ میکخواں کے موقف اور عمل میں تضاد ہے۔

دریں اثناء، ترکی کے وزیرِ خارجہ میولود چاوش اوغلو نے کہا ہے کہ فرانس کے صدر ایمانوئل میکخواں جمہوریت سے متعلق دہرا معیار رکھتے ہیں۔ اُنہوں فرانسیسی صدر کے بیان پر ٹوئیٹر کے ذریعے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’جمہوریت محض ایک فریق کے حقارت، گالی گلوچ اور جھوٹ سے کام لینے پر مبنی نہیں بلکہ یہ نظریات اور حساسیت کو بالائے طاق رکھے جانے کا تقاضا بھی کرتی ہے‘‘۔

فرانسیسی صدر میکخواں جنہیں ناکام معاشی پالیسیوں پر ملک میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے، آج کل اسلامی ممالک کے معاملات میں غیرمعمولی دلچسپی دکھارہے ہیں۔ اُنہوں نے سعودی عرب پر یہ الزام لگایا ہے کہ اُس نے لبنان کے وزیراعظم سعد حریری کو گزشتہ سال یرغمال بنایا تھا۔ سعودی عرب نے اُن کے اس بیان کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ یہ سچ نہیں ہے۔

یاد رہے کہ سعودی عرب لبنان کو معیشت اور سلامتی اقدامات کیلے بھاری مالی امداد فراہم کرتا رہا ہے اور اسی امداد سے بیروت فرانس سمیت دیگر مغربی ملکوں سے ہتھیار خریدتا رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فرانس، امریکہ اور برطانیہ سمیت مغربی ممالک خاص طور پر عرب ممالک کو اپنے ہتھیار فروخت کرنے کیلئے اسلامی ملکوں میں بحران اور جنگی صورتحال تخلیق کرتے ہیں جس کی واضح مثالیں عراق، شام، لیبیا اور یمن ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ فرانس سمیت دیگر ممالک ان ملکوں میں بحران کے ذریعے نہ صرف سعودی عرب جیسے بااثر اسلامی ملکوں کو ہتھیار بیچتے ہیں بلکہ اُن پر غیرریاستی گروپوں کو بھی ہتھیار فراہم کرنے کیلئے دباؤ ڈالتے ہیں تاکہ اپنے ملکوں میں اسلحہ سازی کی صنعت کیلئے مواقع پیدا ہوتے رہیں۔