میں اور جاپان ، تحریر: پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل

میں اور جاپان 
جاپان جانے سے پہلے جاپان سے میرے روابط

تحریر: ڈاکٹر معین الدین عقیل
سابق مہمان پروفیسر: جامعہ ٹوکیو برائے مطالعاتِ خارجی
جزوقتی پروفیسر: جامعہ دائتو بنکا
شریکِ تحقیق: اوساکا یونیورسٹی
شریکِ تحقیق: مرکز مطالعات ایشیا افریقا ایریا اسٹڈیز، کیوتو یونیورسٹی

 

بچپن میں اگر ماحول اور مناسبت موجود ہو اور اُردو فلمیں دیکھنے اور فلمی گانے سننے کا موقع ملتارہاہوتو انیس سو پچاس۔ ساٹھ کی دہائی میں’میرا جوتا ہے جاپانی، یہ پتلون انگلستانی‘ کس نے نہ دیکھا یا نہ سنا ہوگا؟ مجھے یہ موقع ملا اور اسی دوران کہ جب میں اسکول کی ابتدائی جماعت کا طالب علم تھا، میں جاپان سے اسی طرح اس گانے کے توسط سے متعارف ہواتھا۔ پھر اسکول کی نصابی کتابوں میں جب دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے بارے میں پڑھا تو ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکی ایٹم بم کے حملے کے حوالے سے بھی جاپان سے واقفیت ہوئی۔ اس کے ساتھ ساتھ قصے کہانیاں، ناول، افسانے اور شاعری پڑھنی شروع کی تو’’قصۂ شاہ جاپان‘‘ (از محمد حسین خاں)،’’جاپانی بچوں کے گیت‘‘(از نورالحسن برلاس)اور ’’تحفۂ جاپان‘‘(از اصغر گونڈوی) جیسی کتابیں دیکھنے پڑھنے کو ملیں۔ پھر جب کتابوں کے شوق میں یا ضرورتاً کتب خانوں میں جانے اور ڈھیر ساری کتابیں دیکھنے، کھنگالنے اور پڑھنے کا موقع ملا تو سرراس مسعود کے بارے میں پڑھتے ہوئے ان کی تصنیف:’’روحِ جاپان‘‘، مولانا ظفر علی خاں کے حوالے سے پڑھتے ہوئے ان کی کتاب:’’جنگ روس و جاپان‘‘زیادہ توجہ اور علمی ضرورتوں کے تحت پڑھیں۔یہ مبالغہ نہیں کہ جاپان کے بارے میں اردو زبان میں ۱۹۴۰ء تک شائع ہونے والی کتابوں کی تعداد، جن کی فہرست کبھی میں نے بنائی بھی تھی، بیس (۲۰) سے کم نہ تھی۔ پھر جب جاپان میں جانے، رہنے اور کتب خانوں کو چھاننے کا موقع ملا اور خاص طور پر ٹوکیو یونیورسٹی اوف فورن اسٹڈیز کے کتب خانے میں بابائے اُردو، پروفیسر ریئیچی گامو صاحب کے ذاتی ذخیرہٴ کتب کو دیکھا، تو جاپان کے بارے میں وہ اُردو کتابیں بھی دیکھنے کو ملیں جو اس سے پہلے اورپھربعد میں بھی کہیں اور نظر نہ آئیں یا کچھ کتابیں میرے دوست پروفیسر سو یامانے (اوساکا یونیورسٹی) کے ذاتی ذخیرے میں ملیں جو انھوں نے بڑے ذوق و شوق سے جمع کی ہیں۔

یہ تووہ ابتدائی تعارف تھا جو اسکول کے زمانۂ طالب علمی میں کتابوں کے توسط سے جاپان اور جاپانیوں کی تہذیب و معاشرت سے میرا ہوا تھا۔ جاپانیوں سے میرا راست رابطہ تو اس وقت شروع ہوا جب میں کراچی یونیورسٹی کا باقاعدہ طالب علم (۱۹۶۵ء۔۱۹۶۹ء) تھا اور اس وقت ایک جاپانی نوآموزسرکاری افسرسوئیچی ناکانو جاپان میں سرکاری ضابطے کے تحت وہیں جاپان میں کچھ اُردو زبان سیکھنے کے باوجود وزارت خارجہ کی طرف سے اُردو میں اپنی استعداد بڑھانے کے لیے کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں بھیجے گئے تھے۔ انھوں نے اس وقت مجھ سے اردو میں مزید پڑھنا لکھنا شروع کیا اور ادبی کتابیں اور اخباربھی پڑھنے لگے۔ یہ سلسلہ ایک سال جاری رہا اور ان کے ساتھ روزمرہ کے مزید روابط کے قائم ہونے کی وجہ سے پہلی بار ایک جاپانی نوجوان سے قریب ہونے اور جاپانی مزاج ونفسیات کو سمجھنے کا موقع ملا جو بے حد دل چسپ اور سبق آموز رہا۔ ناکانوصاحب سے اب تک رابطہ استوار ہے۔ وہ پہلے یہاں (کراچی، پاکستان) قونصل خانے سے منسلک ہوئے پھر فوراً ہی اسلام آباد سفارت خانے میں تعینات ہوکرچلے گئے اور ایک عرصہ دوسرے ملکوں میں تعینات رہ کر گاہے اسلام آباد اور کراچی بھی تعینات ہوتے رہے۔ اب جب وہ پاکستان اور کراچی آتے ہیں تو ملاقات ہوتی ہے یاجب میں جاپان جاتاہوں تو ان سے ملتاہوں۔

میرے دوسرے شاگرد اور بہت قریبی دوست ہیروکی فوکاماچی اور ان کی بیگم تکاکو ہیں جن سے میرے روابط ۱۹۷۰ء سے قائم ہیں۔ ان سے تعارف کا وسیلہ ایک جاپانی خاتون مس اوسادا کے توسط سے ہوا تھاجو مجھ سے اردو پڑھتی تھیں اور ٹوکیومیں فوکاماچی صاحب کے دفتر ہی میں کام کرتی تھیں اور پھر جب بنگلہ دیش بنا تو یہ ڈھاکہ تعینات ہوکر چلی گئیں۔ فوکاماچی صاحب پاکستان کی معاشیات کے ماہر ہیں اور ایک متعلقہ سرکاری محکمے سے وابستہ تھے۔ اب ضعیف ہیں اور علیل رہتے ہیں۔ جاپانی زندگی اور معاشرت سے جتنا ان میاں بیوی نے مجھے اور میرے خاندان کومتعارف اور قریب کیا، جاپان جانے سے قبل یا یہیں کراچی میں رہتے ہوئے کسی نے نہ کیا۔ جاپان میں مجھے جاپانی زندگی دکھانے کے لیے انھوں نے کافی جتن کیے یہاں تک کہ مجھے دکھانے کے   لیے یہیں کراچی میں بھی’’چانویو‘‘ (Chanoyu) تک کااہتمام کیا جسے انجام دینا آسان اور ہر جاپانی کے بھی بس کی بات نہیں۔ یہ جاپانی چائے پلانے کی انتہائی پُرتکلف تقریب ہوتی ہے جسے بنانے اور پیش کرنے کے لیے ہی نہیں پینے کے لیے بھی بڑے کڑے لیکن نہایت نازک و نفیس اصول و ضوابط مقرر ہیں۔ بیگم فوکاماچی اس کی ماہر ہیں۔ انھوں نے یہ تقریب یہاں کراچی میں اسٹیڈیم کے قریب اپنے گھر میں منعقد کی تھی۔ یہ دوتین سال میرے شاگرد رہے اور بطور شاگرد اپنی عقیدت و محبت کا اظہار یوں کیا کہ ان کے یہاں قیام کے دوران ۱۹۷۵ء میں مجھے کراچی یونیورسٹی نے پی ایچ ڈی کی سند تفویض کی تو اس پر انھوں نے اپنے گھر پر بس دوستی و محبت میں ایک تقریبِ مبارک باد منعقد کی اور اس میں ’’چانویو‘‘ کا اہتمام کیاتھا۔ جاپان میں بھی انھوں نے ہمارے قیام کے دوران جاپان کی انتہائی حقیقی زندگی اور معاشرت اور علاقائی مناظردکھائے۔ یہ دونوں میاں بیوی جاپانی روایات، اخلاق و مروت اور خلوص و محبت کا ایسا پیکر ہیں جنھیں اپنی مثال آپ کہا جاسکتا ہے۔

ناکانو صاحب اور فوکاماچی صاحب کے علاوہ اسی دوران جاپان سے پروفیسرہیروجی کتاؤکا بھی اُردو میں اپنی استعداد بڑھانے کے لیے دو سال کے لیے شعبۂ اردو کراچی یونیورسٹی میں آئے اور یونیورسٹی ہی کے مہمان خانے میں مقیم رہے۔ان سے بھی میرے بے تکلفانہ تعلقات رہے اور اب بھی ہیں۔ انھوں نے بھی یہاں رہتے ہوئے پاکستانی زندگی اور معاشرت اور انسانوں سے دوستی پیدا کرنے میں سرگرم حصہ لیا۔ خوب خوب گھومتے پھرتے تھے اوریہاں کے ماحول میں دل چسپی لیتے تھے۔ انھیں بھی پاکستان اس قدر پسند آیا کہ شاید اس کا چپہ چپہ انھوں نے اسی دوران دیکھ ڈالا۔ ان کے دوران قیام ۱۹۷۱ء کی جنگ شروع ہوئی تو دیگر بیشتر غیر ملکیوں اور جاپانیوں کی طرح یہ کراچی یا پاکستان چھوڑ کر واپس نہیں چلے گئے بلکہ تمام تر مشکلات کے باوجود یہیں رہے اور اس وقت کے حالات کا مشاہدہ اور تجربہ حاصل کرتے رہے۔ یہاں سے واپس جاکر انھوں نے اوساکا یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں پڑھانا شروع کیا لیکن کچھ ہی عرصے بعد ٹوکیو کے نواحی علاقے سائتاما میں جب ایک نئی یونیورسٹی ’’دائتو بنکا ‘‘قائم ہوئی اور اس میں شعبۂ اردو بھی قائم ہوا تو یہ اس سے منسلک ہوکر تمام تر شعبۂ اردو کو فروغ دینے میں مصروف ہوگئے۔ پھر اس یونیورسٹی کے ایک ضابطے کے مطابق کہ جس ملک کی زبان کو سیکھا جائے اس ملک کی معاشرت اور زندگی کو راست خود جاکر مشاہدہ کیاجائے، اس ضابطے کے تحت یہ ہر سال اپنے طالب علموں کو لے کر، جن کی تعداد ۱۵۔۲۰ ہوتی تھی، پاکستان کی سیر کے لیے دو ہفتوں کے لیے آنے لگے اور دس بارہ دن کراچی کے شعبۂ اردو میں طالب علموں کی اردو کی خاص تدریس کا انتظام کرواتے۔ اس موقع پر خوب خوب ان طالب علموں سے بھی مجھے ملنے جلنے کے مواقع ملتے رہے بلکہ ان کی تدریس اور انھیں پاکستانی زندگی سے متعارف کرانے کے لیے تقریبات وغیرہ کے انتظام کی ذمے داریوں میں شرکت اور تعاون کے مواقع بھی مجھے حاصل رہے۔ ان طالب علموں میں سے کچھ طالب علموں سے بعد میں بھی روابط قائم رہے اور جاپان میں قیام کے دوران ان میں وسعت بھی آئی۔ ان میں دو ایک سے اب بھی تعلقات استوار ہیں۔

ان دوستوں اور جاپانی اساتذہ کے علاوہ جو جاپانی افسر اور ممتاز تجارت پیشہ فراد خاص طور پر میتسوبیشی کمپنی کے افسران یہاں آتے تھے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ ان میں سے کئی افراد سے ملتے رہنے اور قریب ہونے کے مواقع مجھے اور میرے خاندان کو ملتے رہے اور یوں جاپان گئے بغیریا جاپان جانے سے پہلے ہی میں اور میرا خاندان گویا جاپان سے قریب ہوتا رہا۔ ان میں ایک مثال تراتنی صاحب کی ہے جو تجارتی مقصد سے کراچی آئے اور پھر یہیں کے ہوکررہ گئے، اسلام قبول کیا اقبال تراتنی نام رکھااور شادی بھی یہیں کی اور ایک بھرپور خاندان تشکیل دے کر خوش گوار زندگی گزاررہے ہیں۔ ان سے بھی سالہا سال سے، جب سے یہ کراچی میں مقیم ہیں، میرے تعلقات استوار رہے ہیں۔ میں نے ان میں جاپانی پاکستانی اخلاق و آداب کا ایک خوش گوار امتزاج دیکھا ہے۔ اس دوران اسادا یوتاکا اور ان کی بیگم میہارو بھی دو تین سال کراچی میں رہیں۔ اسادا صاحب یونیورسٹی سے فراغتِ تعلیم کے بعد گھومتے گھامتے کراچی آئے اور یہاں قونصل خانے کے ثقافتی مرکز میں کام کرنے لگے اوراپنے مزاج کے عین مطابق یہاں شہر کی تہذیبی زندگی اور معاشرے کے نمائندہ افراد سے بہت قریب ہوگئے۔ یہیں رہنے کے دوران انھوں نے ہانگ کانگ جاکر اپنی نئی جاپانی دوست سے شادی کی تھی اورولیمہ یہاں کراچی میں منعقد کیا جس میں پاکستانی انداز سے رسومات بھی ادا ہوئیں۔ میہارو فرانسیسی زبان سے واقف تھیں اور ٹوکیو کے ایک اسکول میں فرانسیسی زبان کی استاد بنیں۔ وہ یہاں رہنے کے سارے عرصے میں مجھ سے اردو پڑھتی رہیں اور فرفر اردو بولنے لگی تھیں اور اب تک اردو سے قریب ہیں۔ اسادا صاحب جاپان واپس جاکرپہلے تو اوساکا یونیورسٹی میں اردو کے استاد رہے پھر باقی سارا وقت ٹوکیویونیورسٹی اوف فورن اسٹڈیز سے منسلک ہوکراردو پڑھاتے رہے۔ انھوں نے اردو زبان اور ادب کے تعلق سے متعدد کام کیے جن میں تراجم اور تصنیف و تالیف بھی شامل ہیں۔ایسے تراجم اور اردو زبان و ادب کے بارے میں دیگر جاپانی اساتذہ اور طلبہ بھی مختلف نوعیتوں کے کام کرتے رہے ہیں۔

سوزوکی صاحب اور ان سے پہلے خود ان کے بھی استاد پروفیسر گاموصاحب نے اس روایت کو خاصا مقبول بنادیاتھا۔ خود ان بزرگوں نے وہاں جو کام کیے ان کے زیر اثر متعدد اساتذہ اور طلبہ نے معروف افسانوں، ناولوں اور منتخب شاعری کے جاپانی میں ترجمے کیے جن میں سے خاصے ترجموں اور ان کے مترجمین سے میں جاپان جانے سے پہلے ہی واقف ہوگیا تھا اور خوشی محسوس کرتاتھا کہ وہاں اردو زبان و ادب کس قدر مقبول ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں اردو کے تقریباً ساڑھے تین سو افسانے جاپانی زبان میں ترجمہ ہوچکے ہیں اور کلاسیکی اور ضخیم ناولوں کی تعداد دس سے زیادہ ہے۔ یہ بات میں جاپان جانے سے پہلے ہی جان گیاتھا کہ جنوبی ایشیا کے باہریورپ اور امریکہ و کینیڈا میں جہاں جہاں یونیورسٹیوں میں اردو کے شعبے قائم ہیں وہاں اساتذہ اور طلبہ میں اردو ادب سے دل چسپی لینے اور ترجمہ کرنے کی کہیں اس قدر شاندار اور خوش کن روایت موجود نہیں، جاپان اس معاملے میں بھی سرفہرست اور ناقابلِ مقابلہ ہے!

اسادا صاحب کے علاوہ اسی عرصے میں جس جاپانی دوست سے قریبی روابط استوار ہوئے وہ شیگے یاکی عظمت اتاکا ہیں جو ستر کی دہائی میں یہاں آئے اور کراچی یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات سے ایم اے کیا۔ پھر کراچی کے قونصل خانے کے ثقافتی مرکز سے منسلک ہوکر ایسی ایسی ثقافتی سرگرمیوں کو فروغ دیا جو ان سے پہلے یہاں کبھی اس طرح دیکھنے میں نہ آئیں۔ ان سے قربت پیدا ہونے کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ کچھ عرصے کے لیے انھوں نے مجھ سے اردو بھی پڑھی اور ان کے ساتھ ثقافتی تقریبات کے انعقاد میں حصہ لینے کا موقع بھی مجھے ملتارہا۔ ہائیکو مشاعروں کا انعقاد اس کی ایک مثال ہے۔ شروع سے ہی اتاکا صاحب نے ہائیکو مشاعروں کے انعقاد اور ان کے لیے مشاورت میں مجھے ہمیشہ ساتھ رکھاہے۔ پھر۲۰۰۲ء میں جب سے ’’پاکستان جاپان کلچرل ایسوسی ایشن، سندھ‘‘ قائم ہوئی ہے اس کے تصور اور آغاز سے ہی اتاکا صاحب نے مجھے ساتھ رکھاہے اور ہم باہم ایک دوسرے کے شریک کار رہے ہیںِ لیکن یہ میرے جاپان سے واپس آنے کے بعد کی بات ہے۔ لیکن اتاکا صاحب نے جاپان جانے سے پہلے بھی مجھے جاپان کی زندگی اور معاشرت سے اپنے مزاج اور کردار سے بہت حد تک متعارف کرادیاتھا۔

اتاکا صاحب کے علاوہ قونصل خانے کے دیگر افسران سے بھی گاہے ان کی کراچی آمد اور ان کے یہاں دوران قیام ملنے جلنے اور دوستی کے مواقع پیدا ہوتے رہے اور ان میں سے بعض افسران کے مجھ سے اردو پڑھنے کے سبب زیادہ قربتیں بھی پیدا ہوئیں۔ان میں سے دو افسران : کوگا صاحب اور کاواکامی صاحب سے ان کی جاپان واپسی کے بعد بھی روابط رہے۔ یہ دونوں جاپان میں سرکاری ملازمتوں سے قطع نظر دیگر شعبوں میں بھی وہاں پیش پیش رہنے کی وجہ سے معروف بھی رہے ہیں لیکن افسوس ، کاواکامی صاحب، جو یہاں سے جاپان واپسی کے بعد کچھ عرصہ وزارت خارجہ ٹوکیو میں کام کرتے رہے پھر یو این او میں جاپان کی نمائندگی کی میز پر متعین ہوئے اور بالآخر اسی منصب پر رہنے کے دوران ان کا ناگہانی انتقال ہوگیا۔ بہت فعال اور مستعد تھے اور کراچی میں بھرپور ثقافتی سرگرمیوں اور پاکستانی تقریبات میں خوب خوب شرکتیں کرتے تھے۔ وہ مجھے اکثر یاد آتے ہیں۔

ان دوستوں کے علاوہ ایک بار ٹوکیو یونیورسٹی اوف فورن اسٹڈیز کے صدر شعبۂ اردو پروفیسر سوزوکی تاکیشی بھی چند دنوں کے لیے یہاں آئے جن سے کئی ملاقاتیں ہوئیں اور ٹھٹہ تک ان کے ساتھ آثار قدیمہ دیکھنے کے لیے سفر کا موقع بھی ملا۔ سوزوکی صاحب وہ پہلے جاپانی تھے جو۱۹۶۰ء میں حکومت پاکستان کے اولین جاری ہونے والے وظیفے پر دوسال کے لیے کراچی یونیورسٹی آئے تھے۔ اس کو وہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے اپنے لیے اتنا بڑا احسان سمجھتے تھے کہ جب بھی یہ ذکر آتا ان کی آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے۔ وہ پاکستان کی کوئی برائی کسی سے بھی نہیں سن سکتے تھے۔ اور پھروہ واقعتاً جاپان میں بابائے اردو بن کے رہے ہیں۔ اردوزبان کی تعلیم و تدریس کے لیے ان کی خدمات بے پناہ ہیں بلکہ اس بارے میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ ویسے تو دیگر پروفیسر حضرات بھی اس صف میں ان کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن سوزوکی صاحب کا کوئی مقابلہ نہیں۔ ان کی خدمات بے مثال ہیں۔ وہ اردو کو اس حد تک فروغ دیتے رہے کہ ان کے کمرے میں ان کے کسی جاپانی طالب علم کوبھی جاپانی زبان استعمال کرنا یابولنا منع تھا سب کے لیے صرف اردو میں گفتگو کرنا لازم تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے شاگرد اردو میں بہت محنتی اور لائق نکلے۔ افسوس سوزوکی صاحب نے، جو یونیورسٹی سے سبکدوشی کے بعد اپنی خدمات کے سبب ’’تاحیات اعزازی پروفیسر(ایمریطس)‘‘ کے منصب پر فائز ہوئے تھے، زیادہ عمر نہ پائی اور کینسر کے موذی مرض نے ان کی جان لے لی ۔ میں نے ان کی شخصیت میں جواور جتنی انسانی و اخلاقی خوبیاں دیکھیں ان میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ یہاں تک کہ جب ایک پاکستانی استاد نے انھیں سخت ذہنی اور قلبی اذیت سے دوچار کردیا، اس کے باوجود عام پاکستانیوں سے ان کی محبتوں اور ان کے روابط میں کوئی فرق نہ آیا، ان کی عنایتیں پاکستانیوں پر جاری رہیں یہاں تک کے ان کے کیے ہوئے جاپانی ادب و شعر کے ایک دو ترجمے پاکستانی ناموں سے چھپے۔ لیکن ان کے انتقال کے بعد وہ پاکستانی نام بانجھ ہوکر رہ گئے ہیں۔

کراچی میں اور ٹھٹہ کے سفر کے دوران مجھے سوزوکی صاحب سے خاصی قربت کے مواقع حاصل ہوئے تھے۔ واپس جانے کے بعد انھوں نے خطوط سے اس رابطے کو مزید بڑھایا ۔ گاہے ان کے شعبے سے جب طلبہ کراچی آتے تو ان کے ساتھ وہ کوئی تحفہ ضرور بھیجتے۔ ان کی دو عزیز طالبات جونکو وتاسے اور یوکاری ریکوکاوا دوسال یہاں رہیں اور وہ دونوں بھی یہاں کی زندگی اور لوگوں میں گھل مل گئیں۔ یہ دونوں بھی ہم سے بہت قریب ہوگئیں کہ وہ قربت اب تک قائم ہے۔ جونکو میں مجھے وہ ساری خوبیاں یکجا نظر آئیں جو جاپانیوں سے مخصوص ہیں۔ یہاں رہنے کے دوران اور ہمارے جاپان کے قیام کے دوران بھی جونکو ہمارے بہت قریب رہیں اوراب بھی قریب ہیں۔ اپنے خاص ذوق و شوق کے تحت انھوں نے بچوں کے لیے لکھے گئے جاپان کے مقبول ادب کو، بچوں کے مقبول مصنف ’موکوہاتوجو‘ کی لکھی ہوئی کہانیوں کااردو میں ترجمہ کرنے کا آغاز کیا جس کی اصلاح وہ مجھ سے لیتی رہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے کیے ہوئے قصے کہانیوں کا ایک مجموعہ چھپنے کے لائق بھی ہوگیا، جسے لاہور کے ممتاز ناشر ’’سنگ میل‘‘ نے ’’سورج کے دیس سے‘‘ کے عنوان سے شائع کیا۔ جونکو نے سوزوکی صاحب کے ساتھ مل کر ریڈیو جاپان سے نشر ہونے والے ’’اردو بول چال‘‘ کے پروگرام کے لیے ایک کتاب بھی لکھی جسے ’’این ایچ کے‘‘ نے ٹوکیو میں شائع کیا۔ میرے جاپان میں رہنے کے دوران جونکو نے بچوں کے ایک نہایت دل چسپ اور سبق آموز ناول ’’مایا‘‘ کا بھی اردو ترجمہ کیا جو موتوہاکوجو ہی کا تصنیف کردہ تھا۔ اسے ’سنگ میل پبلی کیشنز‘ لاہورہی نے شائع کیا اور مجھ سے اس پرپیش لفظ لکھوایا۔

پروفیسر سوزوکی تاکیشی صاحب سے قرب اور روابط کا اور ایک دوسرے سے متعارف ہونے کا نتیجہ یہ نکلا کہ انھوں نے۱۹۹۳ء میں مجھے جاپان آنے اور اپنی ’’ٹوکیو یونیورسٹی اوف فورن اسٹڈیز‘‘سے منسلک ہونے کی دعوت دی، جسے قبول کرنا میرے لیے ایک خوشی کا سبب تھا۔ اس سے قبل ۱۹۸۶ء ۔۱۹۸۷ء میں مجھے اٹلی کی ’’اورینٹل یونیورسٹی‘‘(نیپلز) میں بطور مہمان پروفیسر فرائض انجام دینے کا موقع ملا تھا، جو میرے لیے کئی صورتوں میں خوش گوار ثابت ہوا تھا،اور اس بہانے ساری ترقی یافتہ دنیا، وہاں کی یونیورسٹوں اور کتب خانوں کو دیکھنے اور ان سے منسلک اسکالرز سے ملنے کے مواقع ملے تھے۔ چناں چہ میں نے اس پیش کش کو قبول کرلیا۔ یہ سوزوکی صاحب کا راست مجھ پر ایک بڑا کرم تھا ورنہ ، بقول سوزوکی صاحب، یہاں مجھ سے زیادہ سینیراور خود میرے استاد بھی اسی جگہ جانے کے لیے بے چین اور کوشش میں تھے، جنھیں سوزوکی صاحب نے بوجوہ لینا گوارا نہ کیا اور مجھ پر راست کرم فرمایا۔ سوزوکی صاحب کی اس محبت اور کرم فرمائی کا نتیجہ تھا کہ مجھے جاپان جانے اور جاپانیوں اور جاپانی تہذیب و معاشرت کو راست دیکھنے اور سیکھنے سمجھنے کے مواقع نصیب ہوئے۔

غالباً مجھے جاپان بلائے جانے کے فیصلے کے پسِ پشت سوزوکی صاحب کے علاوہ پروفیسر اسادا کی خواہش بھی شامل تھی، جو اس وقت سوزوکی صاحب کے ماتحت ٹوکیو یونیورسٹی اوف فورن اسٹڈیز سے منسلک ہوچکے تھے اور بہت فعال استاد کی حیثیت اختیار کرگئے تھے۔ انھوں نے اردو کی تدریس کے بارے میں نصابی کتابیں بھی مرتب کیں اور سوزوکی صاحب کے ساتھ مل کر ایک جیبی سائز کی ’’جاپانی۔اردو لغت‘‘ بھی ترتیب دی۔ سوزوکی صاحب اور اسادا صاحب کے علاوہ ایک نوجوان استاد ہیروشی ہاگیتا بھی وہاں شعبۂ اردو سے منسلک تھے اور دو ایک بار کراچی آچکے تھے۔ انھیں اردو کے جدید ادب اور افسانوی ادب سے دل چسپی ہے اور کئی افسانے وہ ترجمہ کرچکے ہیں اور ایک رسالہ ’’اردوادب‘‘ وہ کئی سالوں سے شعبۂ اردو کی طرف سے مرتب و شائع کرتے ہیں جس میں خاص طور پر اردو ادب کے تراجم ہوتے ہیں جو وہیں اردو جاننے والے جاپانیوں کی کوششوں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ کراچی کے دوران قیام وہ میرے ساتھ یہاں کتابوں کی دکانوں اور اپنے مطلب کی کتابوں کی تلاش میں کتب خانوں میں جاتے اور اپنی ضرورت کا مواد حاصل کرتے رہے۔ ہاگیتا صاحب کی بیگم شاشورے بھی دو سال وظیفے پر کراچی یونیورسٹی میں رہیں اور بھرپور زندگی یہاں گزاری۔ جاپان واپس جاکر انھوں نے متعدد افسانوں کے جاپانی میں ترجمے کیے اور پروفیسر احمد علی کے معروف اردو ناول’’دلی کی شام‘‘ کا بھی ترجمہ کیا۔ اب بھی وہ ایسے ترجموں میں مصروف ہیں۔

پروفیسرہاگیتا کے علاوہ ایک اور نوجوان مامیا کین ساکو بھی گاہے کراچی آتے اور مجھ سے بھی ملتے رہے۔ پھر وظیفہ حاصل کرکے یہیں تین سال رہے اور سندھ یونیورسٹی میں سندھی زبان سیکھی اور شعبۂ سندھی میں ایم فل بھی کیا۔ واپس ٹوکیو جاکر یہ مختلف اداروں اور دفتروں میں کام کرتے رہے پھر بالآخر اوساکا یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے منسلک ہوئے اور تین چار سال وہاں رہ کر ٹوکیو منتقل ہوگئے اور ٹوکیو یونیورسٹی اوف فورن اسٹڈیز سے منسلک ہوئے اور اب وہاں ایک بہت فعال استاد کے طور پر سرگرم ہیں۔ اب بھی یہ تقریباً ہر سال پاکستان اور مجھ سے ملنے کے لیے کراچی آتے ہیں۔ ان سب دوستوں نے مل کر میرے جاپان کے قیام کو بے حد با سہولت ، خوش گوار اور مفید بنایا۔ ان سب کا تعلق ٹوکیو اور ٹوکیو یونیورسٹی اوف فورن اسٹڈیز سے رہاہے ۔ لیکن میرے ایک نوجوان دوست سو یامانے اوساکا یونیورسٹی میں شعبۂ اردو کے بہت فعال اور سرگرم استاد ہیں۔ان سے بھی پہلا اور یادگار تعارف پاکستان میں لاہور میں ہوا تھا۔ یہ ۱۹۹۲ء کی بات ہے کہ یہ وہاں پنجاب یونیورسٹی کے اورینٹل کالج میں اردو پڑھ رہے تھے۔ میں کسی سرکاری کام سے اورینٹل کالج کے شعبہ اردوگیا تو دیکھا کہ ایک جاپانی نوجوان اورینٹل کالج کے پروفیسر اورمیرے میزبان ڈاکٹررفیع الدین ہاشمی کے کمرے میں آیا اور پوچھا کہ’’ جناب کیا ڈاکٹر عقیل صاحب یہاں آگئے ہیں، میں ان سے ملنا چاہتاہوں‘‘۔ کمرے میں کئی اور حضرات بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر ہاشمی صاحب نے میری طرف اشارہ کیا اور مجھ سے اس نوجوان کا تعارف کرایا کہ یہ سو یامانے ہیں اور اوساکا جاپان سے آئے ہیں اور دو تین دن سے برابر مجھ سے آکر کہتے تھے کہ جب عقیل صاحب آئیں تو مجھ سے ملائیے، میں ان سے ملنا چاہتاہوں۔ گویا یامانے صاحب مجھ سے واقف تھے اور مجھ سے ملنا چاہتے تھے۔ پھر ان سے جاپان میں اوساکا میں بارہا ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ اور اب تک یہ سلسلہ اور قربتیں جاپان میں اور یہاں جاری ہیں اور اوساکا یونیورسٹی ور کیوتو یونیورسٹی کے کئی علمی منصوبوں میں میرا اوران کاساتھ رہاہے۔

یہ سارے وہ حوالے اورافرادہیں جن سے تعارف پاکستان، کراچی میں ہوا اور ان کے توسط سے میں اور میرا خاندان یہاں کراچی ہی میں رہتے ہوئے اور جاپان گئے بغیر ہی جاپان اور جاپانیوں کو جاننے اور سمجھنے کے قابل ہوا۔ جاپان جانے اور رہنے کے بعد تو ان حوالوں سے وہاں کی زندگی ایک نہایت خوش گوار ، معلومات افزا، چشم کشا اور دلفریب تجربات اور مشاہدات سے مزین ہوتی رہی، جس کا ذکرکچھ کم دل چسپ نہ ہوگا۔