ولادیمیر پوٹن اگلی مدت کیلئے روس کے صدر منتخب، چین کے صدر کی مبارکباد

(ماسکو۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 2 رجب 1439ھ)  رُوس کے صدارتی انتخاب کے غیرسرکاری نتائج کیمطابق ولادیمیر پُوٹن ایک اور مُدّت کیلئے بھاری ووٹوں کیساتھ صدر منتخب ہوگئے ہیں۔ چین کے صدر شی جِن پنگ نے ولادیمیر پُوٹن کو ایک بار پھر رُوس کا صدر منتخب ہونے پر مبارکباد دی دی ہے جبکہ مغربی ذرائع ابلاغ بھی اُن کی یقینی کامیابی کی خبریں دے رہے ہیں۔

رُوس بھر میں ووٹ ڈالنے کے 9 لاکھ 70 ہزار مقامات پر مقامی وقت کیمطابق اتوار کی صبح 8 بجے رائے دہی کا آغاز ہو اور شب آٹھ بجے تک رائے دہندگان کیلئے یہ مقامات کھلے تھے۔ روس کے مرکزی انتخابی کمیشن کے نائب سربراہ نے خبررساں ادارے تاس کو بتایا کہ 95 فیصد ووٹوں کی گنتی کے بعد کیمطابق ووٹ ڈالنے والوں کی شرح 63.7 فیصد تھی تاہم دیگرووٹوں کے مزید ڈیٹا کو شامل کیے جانے پر ووٹ ڈالنے والوں کا تناسب 67 فیصد سے زیادہ ہوگا۔

95 ووٹوں کی گنتی کے بعد جناب پُوٹن نے 75.56 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے اور اُن کی جیت یقینی ہے۔ رُوسی صدارت کی خاتون اُمیدوار کسنیا سوبچک نے جناب پُوٹن کی فتح تسلیم کرلی ہے جبکہ حزبِ اختلاف کی جماعت نے صدارتی انتخاب کو یکطرفہ قراردیتے ہوئے انتخابی نظام اور صدر پُوٹن پر تنقید بھی کی ہے۔ کمیونسٹ پارٹی آف رشیا کیجانب سے صدارتی اُمیدوار پویل گُرودینِن 11.92 ووٹوں کیساتھ دوسرے نمبر پر تھے۔

صدر ولادیمیر پُوٹن نے اپنی یقینی فتح واضح ہوجانے کے بعد ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اپنے حامیوں اور رائے دہندگان سے اظہارِ تشکّر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’رائے دہی کے نتائج سے ملک کی مزید ترقّی کیلئے عوام کے اعتماد اور اُمید کا اظہار ہوتا ہے‘‘۔

باضابطہ طور پر صدر منتخب ہونے کے بعد جناب پُوٹن اب مزید چھ سال یعنی 2024ء تک اقتدار میں رہیں گے۔ یورپی برادری اور برطانیہ کیجانب سے معاشی پابندیوں کے بعد اُنہیں ملک کی اقتصادی حالت بہتر بنانے اور عوام کیلئے روزگار وکاروبار کے مواقع پیدا کرنے کے اہم اہداف کا سامنا ہے جبکہ عالمی سطح پر سلامتی کی گھمبیر صورتحال اُن کیلئے پہلے سے بڑی مشکل ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ شام، ایران، افغانستان، یمن اور لیبیا کے معاملات پر رُوس کے امریکہ سمیت مغربی ممالک سے شدید اختلافات ہیں۔ لیکن صدر پُوٹن کی قیادت میں رُوس نے افغانستان، پاکستان اور مشرقِ وسطیٰ سمیت کئی ملکوں میں نئے اور مضبوط ساتھی تلاش کرلیے ہیں جبکہ تُرکی کیساتھ تیزی سے مستحکم ہوتے تعلقات شام میں رُوس کیلئے مددگار ثابت ہورہے ہیں۔