ولادیمیر پوٹن نے دوسری چھ سالہ صدارتی مدت کیلئے حلف اٹھالیا، ترقیاتی اہداف کا حکمنامہ جاری

(ماسکو۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 22شعبان 1439ھ)  ولادیمیر پُوٹن نے اپنی دوسری چھ سالہ صدارتی مُدّت کیلئے پیر کے روز حلف اُٹھالیا ہے اور اب جوزف اسٹالن کا ریکارڈ توڑتے ہوئے طویل ترین عرصے تک حکمرانی کرنے والے رُوسی رہنماء بن گئے ہیں۔ اُنہوں نے اس سال مارچ میں منعقدہ صدارتی انتخاب میں یکطرفہ انداز سے 77 فیصد سے زائد ووٹوں کیساتھ نمایاں کامیابی حاصل کی تھی۔ یاد رہے کہ روسی صدرپُوٹن 1999ء سے اقتدار میں ہیں اور چوتھی مرتبہ صدر بنے ہیں۔

پُوٹن نے کریملن میں حلف برداری کی تقریب میں ملکی آئین کی کتاب پر ہاتھ رکھ کر حلف اُٹھایا۔ اِس موقع پر اپنے خطاب میں اُنہوں نے کہا کہ ’’یہ میرا فرض اور میری زندگی کا مقصد ہے کہ روس اور اس کے حال و مستقبل کیلئے ہرممکن اقدام کروں‘‘۔

اپنے خطاب میں روسی صدر نے کہا کہ ’’اپنی ذمہ داریوں پر میری گہری نظر ہے اور روسی عوام کے تعاون پر اُن کا شکرگزار ہوں، ہم نے اپنے وطن کے وقار کو بلند کردیا ہے‘‘۔اُن کا کہنا تھا کہ ’’ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے میں روس کی طاقت، وقار اور استحکام کو مزید مضبوط کرنے کے لیے ہرممکن کوشش کروں گا‘‘۔

صدر پُوٹن کی تقریبِ حلف برداری سے چند روز قبل ہی سے ماسکو سمیت کئی شہروں میں حزبِ اختلاف کے احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے تھے لیکن اطلاعات کیمطابق پولیس کیجانب سے ایک ہزار سے زائد افراد کی گرفتاری کے بعد صورتحال معمول پر آگئی ہے جبکہ ماسکو میں مظاہروں اور ریلیوں پر پابندی لگادی گئی ہے۔

منصب صدارت سنبھالنے کے بعد صدر پُوٹن نے 2024ء تک کیلئے قومی ترقیاتی اہداف کے ایک حکمنامے پر دستخط کیے۔ اس حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ روس کو 2024ء تک دنیا کی پانچ سب سے بڑی معیشتوں میں شامل ہونا چاہیئے اور معاشی نمو کی شرح کو یقینی بنایا جانا ضروری ہے۔ قومی ترقیاتی اہداف میں معشیت کو ترجیح دیتے ہوئے کئی اہداف مقرر کیے گئے ہیں جن میں افراطِ زر کی شرح کو چار فیصد کے اندر اندر رکھنا شامل ہے۔

روس کو اس وقت یورپی برادری اور امریکہ کیجانب سے تجارتی پابندیوں کا سامنا ہے جبکہ شام کی بگڑتی صورتحال بھی اُس کیلئے بڑے چیلنجوں میں سے ایک ہے جہاں امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی مشترکہ فوجی کارروائیوں کے علاوہ اسرائیل بھی مختلف اہداف کو نشانہ بنارہا ہے۔