وینزویلا کے صدرمادُوروپر ناکام ڈرون حملہ، امریکی کیجانب سے ملوث ہونے کی تردید

(کاراکس-اُردونیٹ پوڈکاسٹ 24 ذوالقعدہ 1439ھ)  وینزویلا کے صدر نکولس مادُورو ایک فوجی پریڈ کے دوران ڈرون حملے میں بال بال بچ گئے ہیں جس کے بعد اُنہوں نے الزام عائد کیا ہے کہ ہمسایہ ملک کولمبیا اور امریکی ریاست فلوریڈا میں بیٹھے لوگ اس حملے میں ملوث ہیں۔ یہ واقعہ اُس وقت پیش آیا جب صدر مادُورو ایک فوجی پریڈ کی تقریب سے خطاب کررہے تھے جہاں اسٹیج پر اُن کی اہلیہ، بیٹا اور فوج کے اعلیٰ ترین افسران بھی موجود تھے۔

وینزویلا کے حکّام کا کہنا ہے کہ بارودی مواد بھرے ڈرون سے کیے جانے والے حملے کی کوشش کو ناکام بنادیا گیا ہے۔ حملے کے وقت کی وڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ صدر مادُورو کی اہلیہ سمیت بہت سے لوگ اچانک دھماکوں کی آوازوں سے ششدر ہو گئے جبکہ پریڈ میں کھڑے فوجی اہلکاروں نے بھاگ کر منتشر ہونا شروع کردیا۔ صدارتی محافظین نے اسٹیج پر ہی صدر مادُورو کو اپنی حفاظتی ڈھال میں لے لیا اور اُنہیں بحفاظت وہاں سے منتقل کردیا گیا۔

واقعے کے بعد ٹیلیویژن پر نشرکردہ ایک اخباری کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے صدر مادُورو نے کہا کہ ’’حملہ مجھے قتل کرنے کیلئے کیا گیا اور اُنہوں نے مجھے مارنے کی کوشش کی‘‘۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ اب وہ پہلے سے زیادہ پُرعزم ہیں۔

صدر مادُورو نے حملے کی ذمہ داری پڑوسی ملک کولمبیا پر عائد کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ امریکہ میں بیٹھے بعض لوگوں نے حملے کیلئے سرمایہ فراہم کیا۔ دوسری جانب، کولمبیا نے صدر مادُورو کیجانب سے عائدکردہ الزام کی تردید کرتے ہوئے الزامات کو بے بنیاد قراردیا ہے۔

وینزویلا میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ صدر مادُورو پر حملے میں کولمبیا اور امریکہ ملوّث تھے۔ اُدھر امریکی وہائٹ ہاؤس نے صدر مادُرو پر حملے میں امریکہ کے ملوّث ہونے کی تردید کردی ہے۔  امریکہ کی قومی سلامتی کے مُشیر جون بولٹن نے ایک بیان میں کہا کہ ’’میں واضح طور پر کہہ سکتا ہوں کہ اس معاملے میں امریکہ قطعی ملوّث نہیں ہے‘‘۔ اُنہوں نے وینزویلا میں بدعنوانی اور جبر کا حوالہ دیتے ہوئے اُلٹا یہ الزام عائد کیا کہ دھماکے میں مادُورو کی حکومت ملوّث ہوسکتی ہے۔

امریکی حکومت مادُورو حکومت کے عہدیداروں کیخلاف پابندیاں عائد کرچکی ہے جبکہ وینزویلا کئی بار الزام عائد کرچکا ہے کہ واشنگٹن اُس کی حکومت کیخلاف سازش کررہا ہے اور صدر مادُورا کو اقتدار سے ہٹانا چاہتا ہے۔ دونوں ملکوں کے تعلقات مسلسل کشیدہ رہے ہیں۔

یاد رہے کہ ترکی کے کئی حلقوں کیجانب سے بھی امریکہ پر یہ الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں کہ وہ 15جولائی 2016ء کو صدر رجب طیب اردوغان کی حکومت کیخلاف ناکام فوجی بغاوت میں ملوّث تھا۔ ترکی کا الزام ہے کہ امریکی ریاست پنسلوانیا میں مقیم مبینہ مذہبی رہنماء فتح اللہ گولن اور اُس کی تنظیم مذکورہ ناکام فوجی بغاوت میں ملوث تھی۔ ترکی کی حکومت امریکہ سے مسلسل مطالبہ کررہی ہے کہ گولن کو امریکہ بدر کرکے تُرکی کے حوالے کیا جائے۔ ترکی گولن کو دہشتگرد قراردیتا ہے لیکن واشنگٹن ملزم کو انقرہ کے حوالے کرنے سے مسلسل گریز کررہا ہے۔