ٹرمپ نے اسرائیل-فلسطین تنازعے کے دوریاستی حل کو نقصان پہنچایا: محمود عبّاس

 (نیویارک-اُردونیٹ پوڈکاسٹ 19 محرم 1440ھ) فلسطین کے صدر محمود عباس نے اقوامِ متحدہ کے جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے اسرائیل-فلسطین تنازعے کے دو ریاستی حل کو نقصان پہنچایا ہے اور ایک متعصب امریکہ مشرقِ وسطیٰ  کے دیرینہ تنازعے کا واحد ثالث نہیں ہوسکتا۔

اُنہوں نے امریکی صدر ٹرمپ کی انتظامیہ پر الزام عائد کیا کہ اُس نے مشرقِ وسطیٰ کے دیرینہ تنازعے کے دو ریاستی حل کے لیے کی جانے والی کوششوں میں رخنہ ڈالا ہے۔

محمود عبّاس نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مطالبہ کیا کہ مقبوضہ القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور فلسطینیوں کی مالی امداد بند کرنے کے فیصلے واپس لیے جائیں اور کہا ہے کہ ان  اقدامات کی وجہ سے  تنازعےکے دو ریاستی حل کی کوششوں کو نقصان پہنچا ہے۔

اُنہوں نے نشاندہی کی کہ  ٹرمپ انتظامیہ نے ماضی کے تمام  امریکی  وعدوں سے انحراف کیا اور اسرائیل و فلسطینیوں کے مابین تنازعے کے دو ریاستی حل کو نقصان پہنچایا ہے جبکہ ٹرمپ نے فلسطینی عوام کی انسانی صورت حال سے متعلق بھی جھوٹے دعوے کیے ہیں۔

صدر محمود عباس نے کہا کہ  میں صدر ٹرمپ سے اپنے اس مطالبے کا اعادہ کرتا ہوں کہ وہ القدس کے مہاجرین اور فلسطینی علاقوں پر یہودی آباد کاروں کے لیے بستیوں کی تعمیر سے متعلق اپنے فیصلے اور احکامات واپس لیں۔اُنہوں نے فلسطینیوں کی شہری آبادی کے تحفظ کی ضرورت پر بھی زور دیا ۔

فلسطینی صدر نے اپنے خطاب میں واضح کیا کہ ’’مشرقی القدس ہمیشہ فلسطینی عوام کا دارالحکومت رہے گا‘‘۔

قبل ازیں، اقوامِ متحدہ کی جنرل سے اپنے خطاب میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ فلسطینیوں اور اسرائیل کے مابین جاری تنازعے کے خاتمے کے لیے دو ریاستی حل کی تجویز کی حمایت کریں گے بشرطیکہ دونوں فریق اس پر تیار ہوں۔

اُن کا کہنا تھا کہ فریقین کے درمیان امن کے قیام کیلئے امریکہ دو یا تین ماہ کے اندر اندر ایک امن فارمولہ پیش کرے گا۔ یہ مؤقف فلسطین-اسرائیل تنازعے کے دو ریاستی حل کے حوالے سے ٹرمپ کا پہلا واضح بیان ہے جس میں ’’دو ریاستی‘‘ حل کی حمایت کی گئی ہے۔

لیکن مقبوضہ القدس کو یکطرفہ طور پر اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے بعد اس مسئلے میں امریکہ کی حیثیت اب متنازع ہوچکی ہے جبکہ فلسطینی انتظامیہ سمیت دیگر فلسطینی تنطیمیں بھی واشنگٹن کی کسی بھی ثالثی یا امن منصوبے کو مُسترد کرچکی ہیں۔

مزید برآں، مشرقِ وسطیٰ سمیت دنیا بھر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی فلسطین، عالمی اقتصادی صورتحال اور بین الاقوامی تجارت سے متعلق پالیسیوں کو سخت تنقید کا سامنا ہے۔ ایران کے جوہری تنازع پر امریکہ اور یورپی یونین میں اختلافات شدید ہوگئے ہیں جس سے عالمی تجارت اور تیل کی قیمتیں مزید متاثر ہونے کا خدشہ بڑھتا جارہا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی سفارتکاری میں امریکہ کے کم ہوتے اثرورسوخ اور دنیا کے بڑے ممالک سے بڑھتے ہوئے اقتصادی اختلافات نے واشنگٹن کو غیرمعمولی تنہائی کی طرف دھکیل دیا ہے جس کی ایک مثال اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں صدر ٹرمپ کے خطاب کے دوران شُرکاء کے قہقہے ہیں۔