2 طلباء کی ہلاکت کے بعد بنگلہ دیش میں شدید احتجاج، امریکی سفیر کی گاڑی پر حملہ

 (ڈھاکہ-اُردونیٹ پوڈکاسٹ 24 ذوالقعدہ 1439ھ)  بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں نو روز قبل ایک تیزرفتار بس کی زد میں آکر 2 طلباء کی ہلاکت کے بعد پُھوٹ پڑنے والے احتجاجی مظاہرے مسلسل جاری ہیں جبکہ پولیس کے ہاتھوں سینکڑوں طلباء کے شدید زخمی ہوجانے کے بعد احتجاج میں شدّت آگئی ہے۔ طلباء ’’انصاف‘‘ کا مطالبہ کرتے ہوئے ٹریفک کے نظام اور ڈرائیوروں کی لاپرواہی کے سدباب کیلئے زور دے رہے ہیں لیکن حکومتی عہدیداروں نے حقائق تسلیم کرنے کے بجائے طلباء کو غلط قراردیا اور اُن کیخلاف سخت کارروائی کی ہے جس میں بہت سے طلباء شدید زخمی ہوئے اور لاتعداد گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں۔

حکّام نے واقعے کے بعد احتجاج شدید ہوجانے پر ملک بھر میں موبائل اور انٹرنیٹ سروس کو معطل کردیا لیکن اس کے باوجود بھی طلباء اور دیگر نوجوانوں کا احتجاج جاری رہا۔ وزیرِاعظم حسینہ واجد جن کی مقبولیت اطلاعات کیمطابق تیزی سے گرتی جارہی ہے، اُنہوں نے طلباء سے احتجاج ختم کرنے پر زور دیتے ہوئے والدین سے درخواست کی ہے کہ وہ بچّوں کو گھروں سے نہ نکلنے دیں۔ لیکن پولیس کیجانب سے مبینہ طور پر ربڑ کی گولیاں چلانے، آنسو گیس کے استعمال اور شدید تشدد کی وجہ سے بڑی تعداد میں طلباء زخمی ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے حکومت مخالف اشتعال بڑھتا جارہا ہے۔

ڈھاکہ میں بہت سے لوگوں نے الزام عائد کیا ہے کہ پولیس اور سرکاری حمایت یافتہ طلباء کی ایک مبینہ تنظیم کے ارکان نے احتجاج کرنے والوں کو بدترین تشدّد کا نشانہ بنایا جو حکومت کی طرف سے عوام کا پُرامن اور وسیع احتجاج دبانے کی کوشش ہے۔

دوسری جانب، اطلاعات کیمطابق ڈھاکہ میں امریکی سفارتخانے نے کہا ہے کہ سفیر مارسیا برنیکٹ کی گاڑی پر مسلح افراد نے اچانک حملہ کیا تھا تاہم وہ محفوظ رہیں۔ بنگلہ دیش کے نوجوانوں میں امریکہ مخالف جذبات کا رجحان بڑھ رہا ہے اور نوجوان کھلے عام امریکی انتظامیہ پر تنقید کرتے ہوئے اُس پر حسینہ واجد کی حکومت کی بیجا حمایت کا الزام عائد کرتے ہیں۔

تیز رفتار بس کی زد میں آکر 2 طلباء کی ہلاکت کے بعد طلباء اور نوجوانوں نے 317 بسوں کو نذر آتش کردیا اور نقل وحمل کانظام مفلوج ہوگیا ہے۔ پولیس کیجانب سے مظاہرین کی پکڑ دھکڑ اور حکومت کی دیگر کوششوں کے باوجود نوجوانوں کا پُرتشدد ردعمل رُکنے کا نام نہیں لے رہا۔ بتایا جاتا ہے کہ بنگلہ دیش میں ہرسال ٹریفک حادثات میں لگ بھگ چار ہزار لوگ ہلاک ہوجاتے ہیں۔