سمندر پار پاکستانیوں کی عمران خان سے توقعات

سمندر پار پاکستانیوں کی عمران خان سے توقعات

تحریر: محمد زبیر (ٹوکیو)

لیکچرار:دائیتو بُنکا یونیورسٹی، جاپان

5 اگست 2018ء

E-Mail: asiavnn2000@gmail.com

پاکستان کے عام انتخابات 2018ء میں پاکستان تحریکِ انصاف نے قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرلی ہیں اور توقع ہے کہ اس جماعت کے سربراہ عمران خان اگلے 10 سے 12 دن کے اندر اندر حکومت سازی کا عمل مکمل کرتے ہوئے وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھال لیں گے۔ عمران خان نے انتخابات میں یقینی کامیابی کے بعد جمعرات 26 جولائی کو اپنے پہلے خطاب میں سمندر پار پاکستانیوں کو ملک کا اثاثہ قراردیتے ہوئے کہا کہ ملک کا نظام بہتر کرکے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو دعوت دی جائے گی کہ وہ ملک میں سرمایہ کاری کریں۔ عمران خان خود سمندر پار پاکستانی کے طور پر خاص طور پر برطانیہ میں قیام کا طویل تجربہ رکھتے ہیں لہٰذا اُن سے یہ توقع رکھنا غلط نہ ہوگا کہ وہ سمندر پار پاکستانیوں کو صرف ملک میں سرمایہ کاری کی دعوت دینے تک ہی اپنی توجہ مرکوز نہیں کریں گے بلکہ بیرونِ ملک بسنے والے پاکستانیوں کے مسائل پر بھی حقیقی معنوں میں توجہ دینگے اور اس سلسلے میں اپنی حکومت کیجانب سے ایک نئی اور جامع پالیسی کا جلد اعلان کریں گے۔

سمندر پار پاکستانیوں کیلئے قائم فاؤنڈیشن (اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن، اوپی ایف) کی کارکردگی رپورٹ 2017-2016  کیمطابق اس وقت لگ بھگ 96 لاکھ پاکستانی بیرونِ ملک ملازمت کررہے ہیں یا وہاں مقیم ہیں۔ یہ واضح نہیں ہے کہ اس تعداد میں وہ پاکستانی اپنے بچّوں اور اہلِ خانہ سمیت شامل ہیں یا نہیں جو غیرملکی شہریت حاصل کرچکے ہیں۔ راقم نے اپنے گزشتہ کالم میں نشاندہی کی تھی کہ سمندرپار پاکستانی، پاکستان کی سیاحتی صنعت میں ایسی روح پھونک سکتے ہیں جس کی مثال پاکستان کی پوری تاریخ میں نہیں مل سکتی۔ آئیے سب سے پہلے یہ جائزہ لیتے ہیں کہ سمندر پار پاکستانیوں کے مسائل کیا ہیں اور وہ پاکستان کی معیشت میں کیا کردار ادا کرسکتے ہیں؟

1)   بچّوں کی تعلیم اور پاکستان کی قومی زبان وثقافت سے آگاہی

2)   بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے مسائل کے حل میں قانونی وسفارتی مدد

3)   بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں اور پاکستان کے سفارتخانوں و قونصل خانوں کے مابین مربوط رابطے

4)   پاکستان کے انتخابات میں براہِ راست ووٹ ڈالنے کی سہولت

5)   بیرونِ ملک پاکستان کا مثبت تشخّص اور سمندر پار پاکستانیوں کا کردار

6)   پاکستان میں محفوظ سرمایہ کاری کے مواقع

7)   سیاسی وعلاقائی وابستگیوں سے قطع نظر باہمی یکجہتی

8)   وزارتِ سمندر پار پاکستانی اور انسانی وسائل ترقیات سمیت اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن میں جامع اصلاحات

بچّوں کی تعلیم اور پاکستان کی قومی زبان و ثقافت سے آگاہی:

بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کیلئے اپنے بچّوں کی تعلیم ایک مسئلہ رہی ہے اور یہ معاملہ اب سنگین تر ہوتا جارہا ہے۔ سمندر پار پاکستانیوں کی اکثریت مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں ہے جہاں تعلیم مہنگی اور بیشتر پاکستانیوں کی استطاعت سے باہر بھی ہے۔ مزید برآں، مقامی یا انڈین اسکولوں میں جانے کی وجہ سے پاکستانیوں کے بچّے اپنی قومی زبان اُردو اور پاکستانی ثقافت سے تعلیمی سطح پر آگاہی حاصل کرنے سے قاصر ہیں جس کی وجہ سے آگے چل کر اُنہیں اپنے ہم وطنوں سے رابطوں میں پریشانی ہوتی ہے اور وہ بتدریج پاکستانی ثقافت سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ برطانیہ، ہالینڈ، فرانس، بیلجیئم، جرمنی اور ڈنمارک جیسے مغربی ممالک میں طویل عرصے سے مقیم پاکستانیوں کو اپنے بچّوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے میں زیادہ بڑے مسائل کا سامنا نہیں ہے لیکن اُن کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اُن کے بچّے پاکستان کی قومی زبان اُردو ٹھیک طرح نہیں سیکھ پاتے، اگر تھوڑی بہت اُردو بول بھی لیں تو اُردو پڑھنے اور لکھنے سے عاری ہوتے ہیں۔ اس کا سب سے نمایاں منفی اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کی ثقافت اور رہن سہن سے دُور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ امریکہ اور کینیڈا میں مقیم پاکستانیوں کو بھی یہی مسئلہ درپیش ہے۔ اپنی ثقافت سے جُڑے رہنے کیلئے زبان ایک بنیادی کردار ادا کرتی ہے لیکن عرصہ دراز سے بیرونِ ملک مقیم پاکستانی جن کے بچّے بھی بیرونِ ملک پیدا ہوئے یا جنہوں  نے غیرملکی خواتین سے شادی کررکھی ہے، اُنہیں شدّت کیساتھ اس مسئلے کا سامنا ہے۔ یہ معاملہ بعض حالات میں اُن کیلئے انتہائی ذہنی تناؤ کا باعث بھی ہوتا ہے۔ اپنی قومی زبان نہ سمجھنے کی وجہ سے سمندر پار پاکستانیوں کے بچّے دراصل پاکستان سے کٹ جاتے ہیں اور پاکستان جانے سے بھی گریز کرتے نظرآتے ہیں۔ ربط کی یہ کمی مستقبل میں پاکستانیوں کی کئی نسلوں کو اپنے اصل وطن، قوم اور زبان سے اتنی دُور لے جائیگی کہ جس کا ہم تصوّر بھی نہیں کرسکتے۔

حکومتِ پاکستان اس مسئلے تناظر میں بیرونِ ملک پاکستانی برادریوں کیلئے اسکولوں کے بتدریج قیام کی پالیسی اپناکر ایک دُوررس حل دے سکتی ہے۔ اسکولوں کے قیام پر کی جانے والی سرمایہ کاری کے بدلے میں پاکستان کو بیرونِ ملک یکے بعد دیگرے اپنی ایک ایسی تعلیم یافتہ نسل تیار ملے گی جس کے پاس اپنی پاکستانی شناخت اور ثقافت دونوں محفوظ ہوں گی۔ جس جس ملک میں پاکستانی اسکول وکالجز بنانے کی گنجائش ہو وہاں اسکول وکالجز بنائے جائیں اور رفتہ رفتہ مزید اعلیٰ تعلیمی ادارے بھی قائم کیے جاسکتے ہیں۔ جن ملکوں میں پاکستانی برادری کم تعداد میں ہے وہاں ابتداء میں پاکستانی ثقافتی مراکز قائم کیے جاسکتے ہیں جہاں کم ازکم اُردو اور پاکستانی ثقافت کی تعلیم و تربیت فراہم کی جائے۔ یہی ثقافتی مراکز درجنوں ممالک میں پاکستان کی مثبت شبیہ اُجاگر کرنے اور مقامی معاشرے سے پاکستان کے دوستانہ تعلقات کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں تُرکی کی مثال ہمارے سامنے ہے جس نے دنیا کے درجنوں ممالک میں اپنے اسکول اور ثقافتی مراکز قائم کررکھے ہیں اور تیزی سے ان کی تعداد میں اضافہ کررہا ہے۔ یہ کام سرکاری سرمائے سے بنیادی قومی پالیسی کے تحت کیا جارہا ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ترکی کے سمندر پار مقیم شہری اپنی زبان وثقافت سے جُڑے ہوئے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں ہر سال سیاحت کیلئے بمع اہل وعیال اپنے آبائی وطن جاتے ہیں۔ ہمیں سمندر پار پاکستانیوں، اُن کی موجودہ جوان نسلوں اور اگلی نسلوں کو پاکستان سے وابستہ رکھنا ہے، اُنہیں سمندر پار ہونے کی وجہ سے نظرانداز نہیں کردینا۔ یہ پاکستان کا قیمتی سرمایہ ہیں۔

بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے مسائل کے حل میں قانونی وسفارتی مدد:

بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں اور اُن کے بچّوں کو زندگی کے مختلف شعبوں میں درجنوں مسائل کا سامنا رہتا ہے جس کیلئے باقاعدہ قانون مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ سمیت دنیا کے درجنوں ملکوں کی جیلوں میں سینکڑوں پاکستانی قید ہیں۔ کئی ملکوں میں پاکستانی غیرقانونی طور پر مقیم ہونے یا ویزا کی میعاد ختم ہونے پر وطن واپس نہ جانے پر متعلقہ قانون کی خلاف ورزی کی پاداش میں جیلوں میں قید ہیں۔ ایسے پاکستانی بھی ہیں جنہوں نے غیرممالک میں وہاں کی مقامی خواتین سے شادی کی، اُن کے بچّے ہوئے لیکن بعد ازاں کسی بھی وجہ سے طلاق ہوجانے کے باعث اُنہیں جبری طور پر مذکورہ، ملک سے پاکستان بھیجے جانے کا حکم دے دیا جاتا ہے۔ اِس صورت میں پاکستانی اپنے بچّوں سے جُدا ہوجاتے ہیں اور قانونی پیچیدگیاں اتنی گہری ہوتی ہیں کہ اکثروبیشتر یہ پاکستانی اپنی اولاد سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جُدا ہوجاتے ہیں۔ بچّے کسی بھی خاندان اور قوم کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔ ایسے بہت سے پاکستانی جاپان سمیت دنیا کے کئی ممالک کی جیلوں میں قید ہیں جنہوں نے بیوی سے طلاق اور ویزا ختم ہوجانے پر پکڑے جانے کے بعد اپنے بچّوں سے ملاقات کے بغیر وطن واپس جانے سے انکار کردیا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ اِس صورتحال میں پاکستان واپس گئے تو اپنے بچّوں سے پھر کبھی نہیں مل سکیں گے۔ جاپانی قانون میاں بیوی کے درمیان طلاق کی صورت میں نابالغ بچّوں کو ماں کے حوالے کردیتا ہے جسے یہ اختیار بھی حاصل ہوتا ہے کہ وہ بچّوں کو باپ سے ملنے کی اجازت دے یا نہ دے۔ ایسے اہم مسئلے سے نبٹنے کیلئے پاکستانیوں کو مکمل قانونی اور سفارتی مدد فراہم کیے جانے کا ایک منظم طریقہٴ کار یا نظام بنانے کی اشد ضرورت ہے۔

بیرونِ ملک کاروبار اور ملازمت کے معاملات میں بھی پاکستانیوں کو قانونی اور سفارتی مدد کی بیحد ضرورت ہوتی لیکن دیکھا گیا ہے کہ سفارتی سطح پر ایسے معاملات کونظرانداز کردیا جاتا ہے اور پاکستانی بے یارومددگار رہ جاتے ہیں۔ خاص طور پر آج کل سعودی عرب میں پاکستانی محنت کشوں یا تارکینِ وطن کو جن مسائل کا سامنا ہے اُن پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہزاروں ایسے پاکستانی ہیں جنہیں کئی کئی ماہ سے تنخواہیں نہیں ملی ہیں۔

بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں اور پاکستان کے سفارتخانوں و قونصل خانوں کے مابین مربوط رابطے:

بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے پاکستان کے سفارتخانوں اور مقامی قونصل خانوں سے مربوط رابطے ناگزیر ہیں۔  اِن رابطوں کا دائرہ صرف پانچ سال میں ایک بار پاسپورٹ یا شناختی کارڈ کی تجدید کروانے یا پھر ہر سال 23 مارچ کو یومِ پاکستان اور 14 اگست کو یومِ آزادی کی تقریبات تک محدود نہیں ہونا چاہیئے۔ عید یا عیدالاضحیٰ پر سفیر پاکستان کی سفارتخانے یا قونصل خانے کے اندر صرف چند پاکستانیوں سے رسمی سی چائے سموسہ ملاقات بھی فقط روایتی علیک سلیک اور فوٹو کھینچو واٹس ایپ کرو تک محدود ہوتی ہے۔ جاپان میں 23 مارچ یومِ پاکستان کی تقریب جس کا اہتمام سفیرِ پاکستان کرتے ہیں اُس میں مخصوص پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ جاپانی حکومت کے عہدیداروں اور ارکانِ پارلیمان کے علاوہ دیگر ملکوں کے سفارتی نمائندے شرکت کرتے ہیں۔ بقیہ تین تقریبات میں صرف مخصوص پاکستانی ہی ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں پاکستان کے سفارتخانوں میں ایسی تقریبات کی بہت زیادہ ضرورت ہے جن میں پاکستانیوں اور اُن کے اہلِ خانہ کی بڑی تعداد شرکت کرسکے۔ یہ تقریبات صرف صدرِ مملکت یا وزیرِاعظم پاکستان کے رسمی پیغامات سُنانے تک محدود نہ ہوں بلکہ انہیں باہمی رابطے و تعلقات کو مضبوط تر بنانے اور تازہ معلومات کے تبادلوں کیلئے استعمال کیا جانا چاہیئے۔ ایسی تقریبات کا رنگ ثقافتی ہو اور اِن میں مقامی لوگ بھی شامل ہوں تو سونے پر سہاگہ ہوگا تاکہ اُنہیں بھی آگاہی ہوسکے کہ ہمارے لوگ کون ہیں اور ہماری ثقافت وروایات کیا ہیں۔

پاکستان کے انتخابات میں براہِ راست ووٹ ڈالنے کی سہولت:

پاکستان کا آئین تمام پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کا مساوی حق دیتا ہے لیکن یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ سمندر پار پاکستانیوں کو پاکستان کا سفیر، پاکستان کا قیمتی اثاثہ، پاکستان کا سرمایہ اور پاکستان کی معیشت کیلئے ناگزیر قراردینے والے وزرائے اعظم، وزیر اور سیاستدان بیرونِ ملک رہنے والے پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کی سہولت آج تک فراہم نہ کرسکے۔ پاکستان کی تمام حکومتیں سمندر پار پاکستانیوں کو یہ سہولت فراہم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ آج تک کی تمام حکومتوں، وزرائے اعظم اور وزراء کے سمندر پار پاکستانیوں کیلئے استعمال کیے گئے الفاظ اور اُن کے عمل میں تسلسل کیساتھ تضاد رہا ہے۔ سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کا ’’حق‘‘ نہیں دیا جانا بلکہ اس حق کی تو ملکی آئین ضمانت دیتا ہے۔ بات صرف یہ ہے کہ ووٹ ڈالنے کی سہولت فراہم کرنے کیلئے طریقہٴ کار وضع کردیا جائے۔ حالیہ انتخابی مہم میں بہت سے سیاسی قائدین کو یہ کہتے سُنا گیا کہ پاکستان کو ترکی بنادیں گے، ملائیشیاء بنادیں گے، چین بنادیں گے وغیرہ وغیرہ۔ 30 سال بیرونِ ملک رہنے والے مجھ ایسے پاکستانی کو یہ سب سُن کر افسوس ہوتا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ اِن قائدین کے پاس پاکستان اور پاکستانی قوم کی ترقّی کا کوئی ٹھوس تصوّر، منصوبہ اور عزم نہیں ہے کیونکہ ہم پاکستانی تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کو پاکستان بنادیا جائے۔ 20 سے 30 سال پہلے بعض سیاسی قائدین کہتے تھے کہ پاکستان کو انگلستان بنادیں گے، فرانس بنادیں گے اور اب بھی کھوکھلا نعرہ وہی ہے بس ملکوں کے نام بدل دیے گئے ہیں۔

ترکی، فرانس، رُوس، برطانیہ اور اِن جیسے لاتعداد ممالک بیرونِ ملک مقیم اپنے شہریوں کو ووٹ ڈالنے کی سہولت تواتر کیساتھ فراہم کررہے ہیں۔ حکومتِ پاکستان کو یہ نظام بنانے کیلئے کسی موجد کی ضرورت نہیں ہے۔ مکمل طریقہٴ کار اور نظام دنیا بھر میں پہلے سے دستیاب ہے۔ بس پاکستان میں بھی اِسے کسی تاخیر کے بغیر شروع کرنیکی ضرورت ہے۔ اب مزید کسی تاویل یا ایسے بیان کی ضرورت نہیں کہ سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کا ’’حق‘‘ دے دیا جائے گا۔ سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کی سہولت فراہم کرنا حکومت پر لازم ہے اور جس جس حکومت نے اس سلسلے میں کوتاہی کی اُس نے ملکی آئین کی خلاف ورزی کی ہے جس پر جواب طلب کیا جانا چاہیئے۔

بیرونِ ملک پاکستان کا مثبت تشخّص اور سمندر پار پاکستانیوں کا کردار:

پاکستان کی اقتصادی ترقّی، بیرونِ ملک سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے راغب کرنے اور پاکستان کی سیاحتی صنعت کو حقیقی معنوں میں ترقّی دینے اور اِسے ملکی معیشت اور آمدنی کا موثر ذریعہ بنانے کیلئے بیرونِ ملک پاکستان کا پُرامن اور اعتدال پسند تشخّص اُجاگر کرنا ناگزیر ہے۔ اِس سلسلے میں گزشتہ 10 سالوں کے دوران پاکستان کی حکومتیں اور ہماری سفارتکاری بُری طرح ناکام رہے ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی اداروں، عالمی تنظیموں، اداروں اور ذرائع ابلاغ میں پاکستان کی منفی شبیہ یا امیج اس قدر حاوی ہے کہ نئی آنے والی حکومت کو اس پر غیرمعمولی منصوبہ بندی کیساتھ کام کرنے کی ضرورت پڑے گی۔ پاکستان کی منفی شبیہ کو تبدیل کرنے کیلئے ملک میں امن واستحکام ناگزیر ہیں۔ ملک میں تشدّد آمیز واقعات کی وجہ بیرونی مداخلت ہو یا اندرون ملک سرگرداں بیرونی کارندے اور مذہبی عدم برداشت، نئی حکومت کو یہ مسائل حل کرکے امن وامان کی صورتحال کو لازمی بہتر بنانا ہوگا۔

بیرونِ ملک پاکستان کی مثبت شبیہ اُجاگر کرنے کیلئے سمندر پار پاکستانی نہایت مؤثر اور متحرک کردار ادا کرسکتے ہیں بشرطیکہ اِس سلسلے میں سرکاری سطح پر بھی عملی کوششیں کی جائیں۔ غیرملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان کیجانب راغب کرنے کیلئیے پاکستان کے وزیرِاعظم یا وزراء کے بیانات یا بیرونِ ملک پاکستانی سفارتکاروں کی یہ تقاریر کے ملک میں امن وامان ہے اور حکومت نے بیرونی سرمایہ کاری کا ماحول بہتر بنادیا ہے، ناکافی ہیں۔ اِس سلسلے میں زیادہ سے زیادہ ممالک میں پاکستان بازار، پاکستان سے متعلق تصاویری نمائش اور پاکستان کی ثقافتی وادبی تقریبات کو فروغ دینا ضروری ہے۔ اس کی ایک مثال جاپان ہے جہاں ہمارا سفارتخانہ اور پاکستانی برادری یہ کاوشیں کررہے ہیں۔ یہ کام سرکاری اور نجی دونوں سطح پر تسلسل کیساتھ ہونا چاہیئے یعنی پاکستان کے سفارتخانے بھی یہ تعمیری سرگرمیاں کریں اور پاکستانی برادریاں بھی ایسے میلے اور تقریبات منعقد کریں۔

پاکستان میں محفوظ سرمایہ کاری کے مواقع:

سرمایہ کار غیرملکی ہو یا سمندر پار پاکستانی، ہر ایک کی یہ خواہش اور منصوبہ بندی ہوتی ہے کہ اُس کا سرمایہ بھی محفوظ رہے اور کاروبار بھی ترقّی کرے۔ گزشتہ محض ایک سال کے اندر اندر پاکستانی روپے نے جس تیزی کیساتھ اپنی قدر کھوئی ہے وہ انتہائی تشویشناک ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کا قیام سمندر پار پاکستانی سرمایہ کاروں کیلئے اچھّی خبر تو ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ تشویش بھی موجود ہے کہ آیا پاکستان میں سرمایہ کاری محفوظ اور منافع بخش ہوگی یا نہیں۔ گزشتہ کم ازکم 10 سالوں میں جس طرح پاکستان سے سرمایہ باہر گیا ہے اُس کا کوئی باضابطہ ریکارڈ دستیاب نہیں لیکن ہم دیکھ سکتے ہیں کہ پاکستانیوں نے ملک میں اپنی جائیدادیں، زمین اور کارخانے فروخت کرکے سرمایہ بیرونِ ملک منتقل کیا ہے۔ اِس کی سادہ سی وجہ سلامتی کی بگڑتی صورتحال، سیاسی عدم استحکام، سماجی بے چینی اور ملک کے مستقبل سے مایوسی ہے۔ اِن عوامل کو واضح طور پر دُور کیے بغیر اُن لوگوں اور اُن کے سرمائے کو پاکستان واپس لانا قدرے مشکل ہوگا جو مستقبل سے مایوس ہوکر آخری اقدام کے طور پر ملک سے باہر منتقل ہوچکے ہیں یا اپنا سرمایہ ملک سے باہر گھروں کی خریداری اور نئے کاروبار میں لگا چکے ہیں۔

پاکستانی روپے کی گرتی قدر مزید لوگوں کو اپنا سرمایہ ملک سے باہر لے جانے پر مجبور کرسکتی ہے۔ اِس رجحان کی حوصلہ شکنی کرنے کیلئے ملک کسی بھی سیاسی عدم استحکام کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ دوسری جانب، سمندرپار پاکستانیوں کیلئے یہ بہت اچھّا موقع ہے کہ وہ نئی حکومت کی آمد پر تازہ اُمیدوں کیساتھ ملک میں سرمایہ کاری کریں لیکن وہ یہ ضرور سوچیں گے کہ اگر روپیہ اپنی قدر مزید کھوبیٹھا اور امن وامان کی صورتحال جلد مزید بہتر نہ ہوئی تو اُن کا سرمایہ ڈوب بھی سکتا ہے۔ سمندر پار پاکستانیوں کی ملک میں سرمایہ کاری کرنے کی حوصلہ افزائی کرنے کیلئے ضروری ہے کہ محض دکھاوے کیلئے ایسی پالیسیاں نہ بنائی جائیں کہ جن سے صرف اُن چند لوگوں کو فائدہ پہنچے جن کے ہاتھ میں اقتدار آیا ہے بلکہ ایسی پالیسیاں وضع کی جائیں کہ جن سے نہ صرف ملک میں سرمایہ آئے بلکہ اِس کی بدولت عوام کیلئے روزگار کے نئے نئے مواقع پیدا ہوں۔ پاکستان میں سرمایہ کاری کے محفوظ ہونے کا جتنا یقین اور ماحول میسر آئے گا اُسی تناسب سے زیادہ سے زیادہ سمندر پار پاکستانی وطن میں سرمایہ کاری کیلئے آمادہ ہوسکتے ہیں۔

سمندر پار پاکستانی، پاکستان کی سیاحتی صنعت کو ملک کا انتہائی منافع بخش شعبہ بناسکتے ہیں۔ مجھ سمیت لاکھوں پاکستانی چاہتے ہیں کہ ہمارے بچّے اور دیگر گھر والے ہر سال پاکستان جائیں، اپنے وطن کو دیکھیں، اپنے رشتے داروں سے ملیں، اپنے وطن کے کھانے اور پھل کھائیں اور واپس جاکر جس جس ملک میں وہ مقیم ہیں وہاں پاکستان کے بارے میں اپنے تاثرات اور تجربات سے لوگوں کو آگاہ کریں۔ اس وقت 96 لاکھ سے زائد پاکستانی بیرونِ ملک مقیم ہیں اور اُن لوگوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے جو غیرممالک کی شہریت تو لے چُکے ہیں لیکن ہر چند سالوں کے بعد پاکستان جانا چاہتے ہیں۔ ایسی منصوبہ بندی کی جائے کہ ہر سال کم ازکم 15 سے 20 لاکھ پاکستانی بیرونِ ملک سے سیاحت کیلئے پاکستان آئیں۔ ہوائی جہاز کے ٹکٹ سمیت پاکستان کی سیاحت، تحائف، کھانے پینے اور دیگر مد میں یہ پاکستانی اربوں ڈالر خرچ کریں گے جس سے سیاحت سمیت دیگر کئی صنعتوں کی نمو میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ لیکن اس کیلئے پیشہ ورانہ طریقے سے تحقیق اور منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ خدارا سمندرپار پاکستانیوں کی ترسیلات پر ہی انحصار نہ کریں بلکہ سر جوڑ کر یہ حکمتِ تیار کریں کہ ملک سے باہر رہنے والے پاکستانیوں کے سوچ، اُن کے مسائل کے حل اور اُن کی ضروریات کے ذریعے کِس طرح پاکستانی معیشت میں نئی روح پھونکی جاسکتی ہے۔ صرف متحدہ عرب امارات، برطانیہ، جاپان، جنوبی کوریا، چین اور ترکی کی سیاحتی صنعت پر نظر دوڑالیں تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ یہ شعبہ ملکوں کی معاشی ترقّی و نمو میں کتنا کلیدی کردار ادا کررہا ہے۔ سیاحت کے شعبے میں اب سعودی عرب نے نئی منصوبہ بندی کرلی ہے۔ آپ دیکھیں کہ وہ کِس سمت میں کیا تبدیلیاں لارہے ہیں اور اور اپنے خوبصورت لیکن ابھی تک ویران پڑے علاقوں کی خوبصورتی اور جغرافیائی حیثیت کو کس طرح ملکی پیداوار کے انجن کے طور پر استعمال کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔

سیاسی وعلاقائی وابستگیوں سے قطع نظر باہمی یکجہتی:

پاکستان کے عام انتخابات کی مہم کے دوران واضح طور پر دیکھنے میں آیا کہ عوام کی بہت بڑی تعداد نے خُود کو مختلف جماعتوں اور گروپ میں تقسیم کرلیا ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کی انتخاب جیتنے کے بعد پہلی تقریر میں اُنہوں نے عوام کے متحد ہونے کی بات کی ہے۔ اِس سے نشاندہی ہوتی ہے کہ سیاسی وابستگی کے رجحان نے عوام کو بڑی حد تک تقسیم کردیا ہے۔ سمندر پار پاکستانیوں میں بھی گزشتہ کم ازکم 10-15 سالوں میں اِس رجحان نے کافی جڑ پکڑ لی ہے جو کہ تشویشناک بات ہے۔ اب جاپان سمیت بہت سے ملکوں میں مقیم پاکستانی مُسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، تحریکِ انصاف اور دیگر جماعتوں کے گروپوں میں تقسیم نظرآتے ہیں۔ مزید یہ کہ ہر جماعت کے کئی کئی گروپ ہیں اور سب ہی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اصل نمائندے ہیں۔ اِن گروپوں کے اجتماعات میں پاکستان کے جھنڈے اور بانی پاکستان محمد علی جناح کے تصویر کے بجائے اپنی اپنی جماعتوں کے جھنڈے اور اپنے اپنے قائدین کی تصاویر نمایاں ہوتی ہیں۔ بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ سیاسی مخالفت میں وہی کُچھ کہا جاتا ہے جو پاکستان میں آج کا سیاسی کارکن کہہ رہا ہے۔

باہمی یکجہتی کے جذبے کو تقویت دینے اور تمام پاکستانیوں کو ایک اور مُشترکہ مقصد کے حصول پر گامزن کرنے کیلئے ضروری ہے کہ بیرونِ ملک سیاسی جماعتوں کی شاخیں قائم کرنے یا کروانے کی حوصلہ شکنی کی جائے ورنہ جس رفتار سے یہ رجحان پھیل رہا ہے اُس پر قابو پانا ناممکن ہوجائے گا۔ اِس سلسلے میں سیاسی قائدین کو کردار ادا کرنا چاہیئے اور واضح اعلان کرنا چاہیئے کہ بیرونِ ملک پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی شاخ  در شاخ قائم نہ کی جائے۔

وزارتِ سمندر پار پاکستانی اور انسانی وسائل ترقیات سمیت اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن میں جامع اصلاحات:

سمندر پار پاکستانیوں کے مسائل حل کرنے اور ملک کی معیشت میں اُن کا متحرک کردار یقینی بنانے کیلئے پاکستان کی وزارتِ سمندر پار پاکستانی اور انسانی وسائل ترقیات اور اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن میں جامع اصلاحات ناگزیر ہیں۔ سعودی عرب سمیت مشرقِ وسطیٰ میں پاکستانی کارکنان کی حالتِ زار، کئی ملکوں سے پاکستانی کارکنوں کی واپسی اور متحدہ عرب امارات و سعودی عرب سمیت بہت سے ممالک میں پاکستانی افرادی قوّت کی مانگ میں کمی تقاضہ کررہی ہے کہ سمندر پار پاکستانیوں اور انسانی وسائل کے شعبے میں ازسرِنو منصوبہ بندی کی جائے۔

یہ ادراک کرنے کی ضرورت ہے کہ اب دنیا کو غیرتعلیم یافتہ اور بے ہُنرافرادی قوّت کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی چند ماہ کے مختصر کورسز کی بنیاد پر کسی تکنیکی سند کی دنیا میں کوئی قدر ہے۔ اب دنیا بھر کے تمام شعبہ جات میں اطلاعاتی ٹیکنالوجی، آئی ٹی ناگزیر ہوگئی ہے۔ لہٰذا محض بیرونی دورے کرکے یہ بیانات دینا کوئی کارنامہ نہیں کہ فلاں ملک کو پاکستان کی افرادی قوّت برآمد کرنے کیلئے بات چیت کی جائے گی یا فلاں ملک میں پاکستانی افرادی قوّت کیلئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔ یہ محض سیاسی لفاظی اور قیاس آرائیاں ہیں۔ اب دنیا کو اعلیٰ تعلیم یافتہ ماہرین اور باقاعدہ سند یافتہ ہُنرمندوں کی ضرورت ہے۔ پاکستان سے ذریعہٴ معاش کی تلاش کیلئے بذریعہ ایران و ترکی یورپ جانے والوں کو سنہری خواب دکھانے والے ایجنٹوں اور اُن کے گروپوں کا سدِباب کرنا بھی نہایت ضروری ہے کیونکہ اِن لوگوں کے سنہرے جال میں آکر ہمارے بہت سے نوجوان اپنی زندگیاں گنوا بیٹھیں ہیں اور اُن کے خاندان مصائب کے سمندر میں ڈوب گئے ہیں۔

اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن کا کام کبھی کبھار اُس کی ویب سائٹ پر ہی نہیں بلکہ عملی طور پر بھی نظرآنا چاہیئے۔ سمندر پار پاکستانیوں کو معلومات، حکومتی پالیسی اور سرکاری حکمتِ عملی سے متعلق اطلاعات مہیا کرنے کیلئے وزارتِ سمندر پار پاکستانی اور انسانی وسائل ترقیات کے ساتھ ساتھ سمندر پار پاکستانیوں کیلئے فاؤنڈیشن، اوپی ایف کی ویب سائٹس کو قومی زبان اُردو میں بھی بنایا جائے۔ اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ کو دیکھیں تو اُس پر انگریزی زبان میں مخصوص معلومات اور شخصی تشہیری مواد دستیاب ہے۔ کیا مضحکہ خیز بات ہے کہ اُس کی 2016-2017ء کی کارکردگی رپورٹ بھی صرف انگریزی میں ہے۔ اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ کے اُردو میں خُودکار ترجمے کیلئے گُوگل کی سہولت دی گئی ہے اور شاید اِس پوری فاؤنڈیش میں اعلیٰ عہدیداروں سمیت کسی کو نہیں معلوم کہ اُن کی ویب سائٹ پر گُوگل کا اُردو ترجمہ کِس معیار کا ہے اور اُس نے اُن کے متن کو کیا سے کیا بنارکھا ہے۔ یہ غیرذمہ داری ہے یا پیشہ ورانہ غفلت کا عروج ؟ میں آنے والی نئی حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ فوری طور پر اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن سمیت تمام سرکاری ویب سائٹس کو قومی زبان اُردو میں بھی بنایا جائے تاکہ عوام کی معلومات تک رسائی آسان اور بروقت ہوسکے اور اُنہیں پتہ چل سکے کہ حکومت کیا کر رہی ہے، سرکاری پالیسی اور حکمتِ عملی کیا ہے۔

ہم عجیب وغریب قوم ہیں۔ اپنی ہی قومی زبان کو نظرانداز کرکے ہاتھوں میں پرچیاں لیکر انگریزی میں اخباری کانفرنس کرتے ہیں۔ خطاب قوم سےاور زبان غیرملکی بول رہے ہوتے ہیں۔ لیکن انتخابات جیتنے کے بعد جمعرات کے روز عمران خان کی اُردو میں تقریر شاندار تھی۔ اُن کا پیغام، جذبہ اور لہجے کی سچّائی نے اسلیے عوام کے دلوں کو چُھوا کہ اُنہوں نے عوام کی زبان میں بات کی جسے لوگوں نے سمجھا اور محسوس کیا۔ عمران خان کی اِس تقریر کو دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ نے اپنی اپنی زبانوں میں ترجمہ کرکے دکھایا جس سے دنیا کو بھی پاکستان کے متوقع وزیراعظم کی بات موثر انداز میں سُننے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ اِن غیرملکی ذرائع ابلاغ نے اُردو تقریر کا انگریزی اور اپنی اپنی زبانوں میں ترجمہ کروانے کیلئے مترجمین کی خدمات حاصل کی ہونگی۔ یعنی اُردو زبان نے سینکڑوں لوگوں کیلئے کام کے مواقع پیدا کیے۔ سماجی و ثقافتی کے ساتھ ساتھ زبان کے معاشی کردار کو بھی اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ عمران خان اور اُن کی حکومت اِس اہم مسئلے پر بھرپور توجہ دیں گے اور سمندر پار پاکستانیوں کی آواز کو سنجیدہ لیتے ہوئے جامع، متحرک اور طویل مُدتی اقدامات کریں گے۔